پاکستان میں اس وقت مہنگائی اپنی بدترین شکل کو پہنچ چکی ہے اور غریب عوام کا جینا دوبھر ہوچکا ہے لیکن ابھی تک کوئی ریلیف ملنے کا امکان نظر نہیں آرہا۔ مہنگائی کا تعلق طلب اور رسد کے ساتھ ہوتا ہے اس کے علاوہ بھی بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں جن پر کئی کتابیں بھی لکھ دی جائیں تو کم ہیں۔
لیکن سب سے اہم وجہ پرائیویٹائزیش(نجکاری) ہے جیسے جیسے مصنوعات یا خدمات نجی ملکیت میں جاتی ہیں ویسے ویسے ہی نجی مالکان اپنی مرضی کی قیمتیں وصول کرنا شروع کردیتے ہیں اس میں بہت حد تک حکومت بھی ذمہ دار ہوتی ہے مثال کے طور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اسی فیصد کارخانے یا خدمات پرائیویٹ ہوتی ہیں اور بیس فیصد سرکاری ہوتی اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے پرائیویٹ مالکان اپنی من مرضی نہیں کرسکتے اور نا ہی ذخیرہ اندوزی کرکے قیمتیں بڑھا سکتے ہیں کیونکہ حکومت ہر چیز کی نا صرف قیمت خود طے کرتی ہے بلکہ کسی چیز کی قلت بھی پیدا نہیں ہونے دیتی۔ پاکستان میں گھی چینی یا باقی دوسرے کارخانے جو حکومت کے تھے وہ اسی کی دہائی کے بعد بیچ دیے گئے اب لے دے کے ریلوے اور سٹیل مل ہی بچی ہے یا کوئی دوچار اور ہونگے جن کو کسی بھی وقت پرائیویٹ کیا جاسکتا ہے ۔ میں آپکو جی ٹی ایس یعنی گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی مثال دیتا ہوں
جو سرکار کی ملکیت تھی وہ سب سے بہترین بس سروس بھی تھی گورنمنٹ ہی تمام روٹس کا کرایہ طے کرتی تھی اور اس کرایہ نامہ پر نجی بسوں کو بھی عمل کرنا پڑتا تھا پھر جی ٹی ایس کو بیچ دیا گیا اور اس سے نا صرف لوگ بے روزگار ہوئے بلکہ اب ہم نجی بس کمپنیوں کے رحم وکرم پر ہیں اور نجی کمپنیاں حکومتی کرایہ نامہ کو بالکل نہیں مانتیں اور اگر حکومت سختی سے عمل کروانے کی کوشش کرتی ہے تو بس مالکان پہیہ جام ہڑتال کر دیتے ہیں اور مجبوراًحکومت کو ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں یہی حال باقی مصنوعات کا ہے چینی گھی گندم اور باقی اشیاء بڑے تاجر پہلے ذخیرہ کرتے ہیں اور پھر من مانی قیمت مقرر کرکے غریب عوام کا خون چوستے ہیں
میری ارباب اختیار کو تجویز ہے کہ بے روزگاری کے خاتمے اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے حکومت صنعتی پالیسی بنائے اور بیس فیصد ہر چیز کے کارخانے سرکاری سطح پر قائم کرے اس سے حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ ہوگا بے روزگاری کم ہوگی اور مہنگائی بھی ختم ہوجائے گی نجی مالکان لوگوں کا استحصال نہیں کرسکیں گے اور سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنے میں بہت زیادہ آسانی ہوگی