“اپنی اپنی سوچ،اپنے اپنے خیالات”
زندگی! ہم آپ سب گزار رہے ہیں۔ اس کے بارے میں ہماری اپنی الگ الگ سوچیں ہوتی ہیں۔ ہم میں سے کچھ کو زندگی پھولوں کی طرح خوبصورت لگتی ہے۔ اور کچھ اسے کانٹوں بھری راہ گزر سمجھ کر اسے گزار رہے ہیں۔ آئیے چند اور خیالات بھی سن لیں:
زندگی سال بھر کے موسموں کے مانند ہوتی ہے،پر مسرت اور شاداب موسم گرما کے بعد افسوس بھری خزاں پرپھیلاۓ آ جاتی ہے۔ اس کے بعد کڑکڑاتا ہوا جاڑا نمودار ہو جاتا ہے۔ اور موسم بہار آجاتا ہے۔
زندگی ایک ارادہ بھی ہے۔ جو جوانی کے ساتھ چمٹا رہتا ہے۔ ایک کوشش ہے۔ جو پختہ عمری کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ اور بڑھاپے کے پیچھے رینگتی ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زندگی محض ایک تجربہ گاہ ہے،ایک وجود ہے۔ مختصر سی سراۓ ۔ سمندر کے کنارے ایک بندرگاہ بے پناہ وسعتوں کے درمیان ایک چپہ بھر زمین، حقیقت میں زندگی ایک شمع ہے۔ جو خود جلتی ہے۔ مگر دوسروں کی راہیں روشن کر دیتی ہے۔ ایک درخت کی مانند ہے۔ جس کے پھول تو راحت اور خوشبو دیتے ہیں لیکن کانٹے اذیت دینے سے باز نہیں آتے۔ زندگی بظاہر دل کش ہے مگر اس کی حقیقت تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔اور میرا ذاتی خیال ہے کہ زندگی تمام تر دکھوں کا مجموعہ ہے۔ اور سکھ ان میں سے دو دکھوں کے درمیان معمولی سا وقفہ ہے۔ لہٰذا ہم سب کو ان دکھوں سے ہی سمجھوتا کر لینا چاہیۓ۔اس طرح سے ہم زندگی کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔
زندگی ہے کیا؟
٭ ہوا کے زور سے بلند ہونے والے کاغذ نے پکارا “آہا” بلندی ہی زندگی ہے۔
٭ ذرات نے کروٹ لے کر کہا ” پستی اور بلندی کی کشمکش ہی زندگی ہے۔”
٭ دل نے کہا ” ہر دھڑکن زندگی ہے۔”
٭ درخت کی ٹھنڈی چھاؤں تلے نرم گھاس کی آغوش میں بہتی ہوئی ندی نے کہا ” میٹھا اور دھیما راگ ہی زندگی ہے۔”
٭ زمین نے اپنا چکر پورا کرتے ہوۓ کہا ” اپنے مرکز کے گرد گھومنا ہی زندگی ہے۔”
٭ چاند نے اپنے حسین چہرے کی شکن درست کرتے ہوۓ کہا “بار بار گھٹنے اور بڑھنے کا نام ہی زندگی ہے۔”