آخرکیا ہے یہ محبت۔ کچھ کہتے ہیں، محبت جینے نہیں دیتی اور کچھ کہتے ہیں محبت کے بغیر جیا نہیں جاتا۔ محبت کر کہ جئے یا جینے کے لیے محبت کریں۔ مجھ سے پوچھا جائے تو میں کہوں گی، انسان خود ”محبت” ہے۔ محبت سے پیدا کیا گیا اور اسی محبت کو نبھاتے نبھاتے مر جاتا ہے۔ اللہ انسان کو محبت سے پیدا کرتا ہے
اور یے بھی وعدہ کرتا ہے کہ اسی محبت سے اسے پالے گا بھی۔ محبت وہ جزبہ ہے جو انسان کو خدا سے ملا دیتا ہے۔ محبت کی خواہش ہے ملاقات اور ملاقات کہ لیے ہے مرنا ضروری ۔۔۔دنیا نے محبت کو کھیل تماشا سمجھ لیا ہے۔ یے محبت کا داواہ تو کرتی ہے لیکن یے نہیں جانتی کہ حقیقی محبت تو تب جا کر ملتی ہے جب کسی ذات کے خاتر اپنا آپ قربان کر دیا جاے۔ وہ ذات اللہ کے علاوہ کون ہو سکتی ہے۔ کسی سے محبت کی بھی جائےتو اللہ کی محبت میں ۔ کسی کہ دکھ کو اپنا بنالیا جائےتو صرف اللہ کی محبت میں ۔ کسی کی زیادتی برداشت کر کہ صبر کر لیا جاے تو وہ بھی صرف آللہ کی محبت میں۔ محبت اپنے غرض کے لیے کی جا ئےتو تکلیف ہی دے گی۔ اور اگر محبت کی خاطر محبت کی جاے تو ذندگی بہت حسین سفر ہے۔ کانٹے بھی پھولوں میں بدل جاتے ہیں۔
”کاش کہ تم بھی سمجھ جاو محبت کی انتہا کو ،
کہ حیران رہ جاو گے تم اپنی خوش قسمتی پر”
”محبت کی دعا” کی جاے اور محبت نا ملے، یے کسے ممکن ہے۔ یا تو محبت سچی نہیں یا دعا سچی نہیں ۔۔”محبت کا مل جانا” محبت نہیں، بلکہ محبت سے بچھڑ کر محبت ہو جانا محبت ہے۔۔محبت دی ںہیں جاتی ، محبت لی نہیں جاتی، تب ہی تو محبت کی جاتی ہے۔۔
محبت خاموشی ہے ، محبت اظہار ہے۔۔
محبت نا مکمل ہے، محبت تکمیل ہے۔۔
محبت کے لیے محبوب ہونا نہیں ، محبوب کے لیے محبت کا ہونا ہے۔ جاہاں محبت ہے وہاں محبوب۔ وہ میرے پاس ہے یا مجھ سے دور، وہ موجود ہے کیوں کہ محبت ہے۔ اور جدھر محبت ہوتی ہے وہیں محبوب ہوتا ہے۔ محبت ھر وقت ساتھ ہے تب ہی تو محبوب۔ بچھڑنا ملاقات کا اک بہانا ہے۔ بچھڑنا بھی محبت ہے اور بچھڑ کر مل جانا بھی محبت۔ تو آے تھے اس جہان صرف محبت کرنے ، محبت برداشت کرتے رہ گے اور بدنام کرتے رہ گے۔۔۔۔۔
اروما طاہر۔