Skip to content

امیر شہر

امیر شہر
تحریر سید صفدر بخاری
اللہ تعالیٰ کی پاک بے عیب اور لاریب کتاب قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کُل مَن علیھا فان ہر ایک چیز نے فنا ہونا ہے دوسری جگہ ارشاد ہے کہ بے شک اس کی ذات سب سے عظیم و بزرگ برتر ہے جس کے قبضہ قدرت میں ساری کائنات کی سلطنت ہے وہی ہے جو ہر چیز پر قادر ہے اور وہی ہے جس نے موت اور زندگی کوخلق کیا تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون ہے جو سب سے اچھے عمل لے کر آتا ہے

نئی صبح کبھی کبھی خوشیاں اورکبھی غم کا پیغام لے کر آتی ہے کسی کے نصیب میں مسکراہٹیں اورکسی کے نصیب میں آنسووں کے سمندر ہوتے ہیں صبح ہونے سے پہلے ہی مسجدوں اور مدرسوں سے اسپیکروں میں اعلانات نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیاتھا بڑی ہی بے تابی سے ان کے ذہن جاننے کےلئے بیتاب تھے کہ کون سی ہستی آج فانی ہوگئی ہے کس نے داغ مفارقت دے دیا ہے جوں جوں سورج اپنے معمول کے مطابق اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے دن کوروشنی مہیا کررہا تھا ہر جاندارچیزوں کوزندگی کااحساس دلاتے ہوئے ان کو ہوشیا ر کررہا تھا اور خوا ب غفلت سے بیدار کررہا تھا رکشوں میں بھی اعلانات نے لوگوں کو چوکنا کردیا تھا لوگ بھا گ بھاگ کرا پنے گھروں کے باہر یہ آواز سننے کے لئے بے تاب تھے کیونکہ گھروں میں بچوں کے شوروغل اور باہر موٹر سائیکلوں اور کاروں کی گڑ گڑاہٹ سے اعلان پوری طرح نہ سنائی دے رہا تھا صرف جنازہ تین بجے ہوگا اور ثواب دارین حاصل کریں کے بغیر کسی بھی لفظ کا پتہ نہ چلتا تھا یہ اعلان کیسا ہے ؟ خداخیر کرے کون ہے جس نے مزہ زیست کو چھوڑ کر موت کا ذائقہ چکھ لیا ہے ؟ کس کی زندگی کی گاڑی کا پہیہ جام ہوگیا ہے ہرایک کے ذہنوں میں سوالات گردش کررہے تھے آخرکار پتہ چلا کہ امیر شہر فخر فرعون جو کہ عرصہ تک خدا کی زمین پر خدابن کر زندہ رہا ظلم و ستم میں سبقت لینے والا یتیموں بیواوں کا مال ہڑپ کرنے والا غر یبوں کو تھانوں میں چھترول کرانے والا قتل و غارت میں ایک مقام بنانے والا غریبوں شریفوں کے لئے ایک ہیبت اور دہشت کا نشان تھا اس کا مقصد تھا کہ لوگ مجھےجھک کر سلام کریں اور جو کچھ میں کہو اس کو من وعن تسلیم کریں میرا ہی حکم تمام علاقہ پر چلے میری ہی شاہی ہو عرصہ سے بیمار اور شہر کی سب سے بڑی پرائیوٹ ہسپتال میں ا ے سی کمرے میں زندگی کاحکم امتناعی حاصل کرنے کےلئے بڑے بڑے ڈاکٹروں اور طبیبوں کواپنی زندگی کا مقدمہ لڑنے کےلئے دے رکھا تھا ڈاکٹرز طبیب بڑی بڑی فیسیں لے کر بڑی کوشش میں تھے کہ اس کو کچھ عرصہ کےلئے زندگی کا حکم امتناعی مزید مل سکے اور کچھ بچے کھچے ظلم اور زیادتیاں کراسکے لیکن آج رب خالق کی عدالت میں اس کا مقدمہ ِ زندگی کا سٹے خارج ہوگیا تھا.

آج اس کا نام صفحہ ہستی سے ڈیلیٹ کر دیا گیا تھا اس کی زندگی موت میں منتقل ہوگئی تھی آج امیر شہر جوکہ فخر فرعون تھا اب بے حس پڑا لوگوں کا محتاج کہ اس کی لاش کو کفن دے کردفن کریں اور یہ اب لوگوں کی دعاوں کا منتظر تھا کئی لوگ سن کررورہے تھے جو اس کے حمایتی تھے جنہوں نے اس کے دور فرعونیت میں عیش و عشرت کے مزے لئے تھے اور کئی لوگ خوش ہورہے تھے اورخداکا شکراداکررہے تھے کہ خدا کے گھر دیرہے اندھیر نہیں آخر ظلم انجام پذیر ہوا جس نے ظلم کے کئی باب رقم کئے تھے آج اس کی زندگی کا باب بند ہوچکا تھا آج اس کی سانسیں جس پروہ بہت فخر کیا کرتا تھا ان سانسوں کارشتہ اس کے جسم سے منقطع ہو چکا تھا وہ یتیم بچے اور بیوہ عورتیں جو ہمیشہ اس کوبددعاوں سے ہی یاد کیا کرتی تھی جن کے وارث اسی کی ظلم کی بھینٹ چڑھے تھے کیونکہ یہاں کی عدالتیں تھانے کچہریاں اس کی زرخرید تھی لیکن آج اس رب ذوالجلال کی عدالت کو کیسے خریدے گا ابھی تو اس کی لاش بن غسل پڑی ہے اور اپنے خاندانی وراثت کے جھگڑے نے چھیڑ خانی شروع کردی ہے.

کچھ لوگ اس کے جنازے کوروکنے کی تیاری کررہے ہیں جو انہوں نے اس امیر شہر کو اس کی زندگی میں قرضہ دیاتھا اس نے واپس نہیں کیاتھا اب وصول کریں گے کیونکہ اب تو عدالتیں ہی تبدیل ہوچکی ہیں خدا کی عدالت میں کس کی جرات کہ کوئی مداخلت کرے آج کیڑوں مکوڑوں میں جشن کاسماں ہے کہ اتنا موٹا تازہ امیرکچھ عرصہ ان کی خوراک کا ذریعہ بنے گا کچھ دنوں تک خوب عیاشی ہوگی اس کی تما م تر کوششیں ناکام ثابت ہوئی کہ اس کی سانسیں کچھ عرصہ تک اس کا ساتھ دیں لیکن اللہ کا وعدہ سچا ہو ا کہ موت ایک دن یقینی ہے موت نے اس کو مزید مہلت نہ دی کیونکہ اس نظام قدرت میں کوئی رشوت اور سفارش وغیرہ نہیں چلتی آخر کار زندگی کاحساب کتاب تو دینا ہی پڑے گا کیونکہ اللہ کی دی ہوئی نعمت جوکہ زندگی کی شکل میں ملی اس کو کہاں کہاں سرف کیا؟ ہر انسان نے لذت موت سے آشنا ہوکر فنا ہو نا ہے یہ مختصر سی زندگی جو اپنی منزل مقصود پر عالم برزخ میں پہنچ چکی ہے جو خدا کی زمین پر بڑے نازوفخر سے اکڑ اکڑ کرچلتا تھا آج بے بس بے حس پڑا لوگوں کا محتاج ہے جو اس کو منوں مٹی تلے دبادیں اس کی کمائی اس کے وارث جس راہ میں خرچ کریں چاہئےشراب خانوں میں موج مستیاں کرتے ہوئے یا مجروں میں حسیناوں کوداد عیش دیتے ہوئے لیکن حساب کتاب تو یہی متوفی امیر شہر دے گا کیونکہ کھاتا اسی کے نام سے ہی کھلا ہوا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *