آئی سی سی کی ٹیم یا آئی پی ایل کی ٹیم
جس دن سے پاکستان وجود میں آیا ہے اس دن سے تقریبا دنیا کے سب بڑے ممالک پاکستان سے مختلف محاذ پر لڑتے آئے ہیں یہاں تک کے کھیل کے میدانوں میں بھی یہ دشمنی صاف دکھائی دی ہے ایسی ہی ایک اور حرکت آئی سی سی نے کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بھی پاکستان سے دشمنی میں کسی سے کم نہیں
آئی سی سی نے ایک نیا کارنامہ انجام دیا ہے اس نے 2011 سے لے کر 2020 تک کی 3 ٹیمیں بنائی ہیں ایک ون ڈے کی ٹیم 1 ٹی ٹونٹی کی ٹیم اور ایک ٹیسٹ ٹیم اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان تینوں ٹیموں میں پاکستان کا ایک بھی کھلاڑی موجود نہیں ہے-پاکستان کے پلیئر ان میں شامل ہونے چاہیے تھے یا نہیں یہ فیصلہ بعد میں کرتے ہیں پہلے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ان تینوں ٹیموں میں کون سے پلیئر شامل ہیں
ٹی ٹونٹی کی ٹیم
روہت شرما
کرس گیل
فینچ
وراٹ کوہلی
اے بی ڈویلیئر
میکسیول
دھونی
پولارڈ
راشد خان
بومرہ
ون ڈے کی ٹیم
ڈیوڈ وارنر
رویت شرما
ویراٹ کوہلی
اے بی ڈویلیئر
دھونی
سٹوکس
شکیب الحسن
مچل سٹاک
بولڈ
ملنگا
عمران طاہر
ٹیسٹ ٹیم
الیسٹر کک
ڈیوڈ وارنر
ولیمسن
وراٹ کوہلی
ڈیوڈ سمتھ
سنگا کارا
سٹوکس
ایشون
ڈیل سٹین
بروڈ
جیمز اینڈرسن
انگلینڈ، آسٹریلیا ،انڈیا، ویسٹ انڈیز، ساؤتھ افریقہ، نیوزی لینڈ، بنگلہ دیش، اور افغانستان ان سب ممالک کے پلیئر شامل ہیں
تو بات کرتے ہیں ہم پاکستانی پلیئرز کی پہلے نمبر پر بابر اعظم کی بات کر لیتے ہیں بابر اعظم کافی لمبے عرصے تک ٹی ٹوئنٹی کا پہلے نمبر کا بیٹسمین رہا ہے اور ابھی بھی بابر اعظم ٹی ٹونٹی کی رینکنگ میں دوسرے نمبر پر ہے دنیا آج بھی بات کرتی ہے کہ بابرعظم بہتر ہے یا ویراٹ کوہلی اور اگر ہم ان دونوں پلیئرز کا اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو بابر اعظم ویرات کوہلی سے زیادہ بہتر ہے اور باقی کے پلیئرز میں سے بھی بابراعظم کافی بہتر ہے
اور اگر ٹیسٹ کرکٹ میں دیکھا جائے تو یونس خان کا نام شامل نہ کرنا سراسر نا انصافی ہے-اگر ہم بولنگ کی بات کرتے ہیں تو عمر گل اور محمد عامر ان دونوں کا ریکارڈ بھی کسی سے کم نہیں ان کو بھی شامل نہ کرنا سراسر نا انصافی ہےلیکن اب بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں آئی سی سی کا جو ظرف تھا اس نے دکھا دیا آگے آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ آ رہا ہے اور پاکستان کے پاس موقع ہے کہ آئی سی سی کو یہ ثابت کرے کہ جو ٹیمیں اس نے بنائی ہیں وہ دنیا کی نہیں آئی پی ایل کی بنائی ہے