Skip to content

شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے

آجکل کے دور میں ہر ایک شخص سے کوئی نہ کوئی برائی ضرور سرزد ہو جاتی ہے۔کوئی شخص اگر کسی کو برائی کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ شخص بھی اس برائی میں لگ جاتا ہے اور وہ اس برے کام کی کسی کو خبر نہیں دیتا۔اسی طرح اس شخص کو کوئی اور دیکھ لیتا ہے

تو وہ بھی کوئی غلط کام کرنے کیلئے اس شخص کے ساتھ مل جاتا ہے اور اس کے نقشہ و قدم پر چلنے لگتا ہے۔اگر ہم اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر چھوٹے بڑے ادارے میں کوئی دو نمبری کام کرنے والا ضرور ملے گا۔ہم روزانہ یہ حال اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی ہوتا ہے جوکہ کسی وکیل سے کوئی کیس لڑانا چاہتا ہے۔وہ آدمی وکیل کو پہلے سے بتا دیتا ہے کہ میں ناحق پر ہوں،اس کیس کو جیتنے میں آپ کو مشکل پیش آئے گی۔لیکن وکیل چند ہزار پیسوں کے عوض اس کیس کو لینے پر تیار ہوجاتا ہے اور عدالت میں کیس لڑتا ہے۔اس کے علاوہ اگر کوئی مریض کسی ڈاکٹر کے پاس چلا جاتا ہے تو ڈاکٹر اس کا طبعی معائنہ کرنے کے بعد اس شخص کیلئے غیرضروری ٹیسٹ لیکھ لیتا ہے کہ آپ نے میرے کلینک کے ساتھ واقع لیبارٹری سے یہ ٹیسٹ کروانے ہیں۔لیبارٹری میں موجود حضرات کے ساتھ ڈاکٹر کا کمیشن ہوتا ہے۔ڈاکٹر کو لیبارٹری کی طرف سے ہر ماہ کمیشن ملتا ہے۔لہٰذہ وہ ہر مریض کو غیر ضروری ٹیسٹ کروانے کو کہتا ہے۔ڈاکٹر کی کہانی کے بعد اب پولیس میں موجود کالی بھیڑیوں کی کہانی بھی ذرہ سن لے۔کسی تھانے پر تعینات ایس۔ایچ۔او جس کو عہدہ صرف اس لئے ملتا ہے تاکہ وہ لوگوں کی حفاظت کریں۔

اگر وہی ایس۔ایچ۔او لوگوں کی حفاظت کرنے کے بجائے لٹیرا بن جائے اور لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیں تو اس ملک کا مستقبل روشن ہوگا یا تاریک؟ فیصلہ آپ لوگوں پر چھوڑتا ہوں۔پاکستان میں آپ کو بہت سارے ایسے ایس۔ایچ۔اوز دیکھنے کو ملیں گے جو کہ کسی بےگناہ شخص کو اٹھا کر تھانے صرف اس لئے لے کر آتے ہیں تاکہ وہ اس شخص سے رشوت وصول کر سکے اور رشوت وصول کرنے کے بعد اس شخص کو چھوڑ دیں۔مجھے شکایت ہے تو اس بھوکے اور مجرم وکیل سے نہیں بلکہ شکایت ہے تو اس شخص سے ہے کہ جس کو معلوم بھی ہوجاتا ہے کہ یہ بےضمیر وکیل پیسوں کیلئے کسی ناحق کا کیس لڑنے کیلئے تیار ہوتا ہے لیکن پھر بھی کسی کو خبر نہیں دیتا ۔مجھے افسوس ہے تو فراڈی ڈاکٹر پر نہیں بلکہ افسوس ہے تو اس لیبارٹری والے پر ہے کہ جو جانتا ہے کہ اس ڈاکٹر کے پاس غریب اور لاچار لوگ بھی آتے ہونگے لیکن پھر بھی ان لوگوں پر ترس نہیں کھاتا بلکہ بغیر کسی خوفِ الٰہی کے اپنا دھندا جاری رکھے ہوئے ہوتا ہے۔

مجھے اعتراض ہے تو اس کرپٹ ایس۔ایچ۔او پر نہیں بلکہ اعتراض ہے تو ایس۔ایچ۔او کے انڈر(Under) ان پولیس والوں پر ہے کہ جن کو اپنے سپہ سالار کے کالے کرتوت کا علم بھی ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ خاموش رہتے ہیں اور برائی کو چھپائے رکھتے ہیں۔اگر یہ لوگ خود کو ٹھیک کر لیں اور اپنا مفاد چھوڑ کر انسانیت کے بارے میں سوچھنے لگے،بھائی چار کو فروغ دیں۔اور ایسے عناصر جو معاشرے کیلئے نقصان کا باعث ہیں کے بارے میں لوگوں کو اطلاع دیں تو کافی حد تک برائی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہ لوگ کسی کو خبر نہیں دیتے۔میرا ان لوگوں سے سوال ہے کہ آپ لوگ کیوں کسی کو خبر نہیں دیتے؟ ان لوگوں کے پاس اس سوال کا جواب موجود ہے لیکن وہ کبھی بھی جواب نہیں دیں گے۔چلیئے میں ان لوگوں کے دلوں میں موجود جواب اس شعر میں دیتا ہوں۔

“ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *