Skip to content

فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے بچنے کے لیے

فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے بچنے کے لیے
لوگوں کے اعتراض کرنے کی یہ وجہ بات دلچسپ اور عام ہے۔ ہم نے بچپن سے ایسے محاورے سنے ہوئے ہیں جن میں سکھاتے ہیں کہ کسی کام میں جلدی مت کرو۔ ہر زبان میں ایسےمحاورے موجود ہیں ۔
اردو میں جلدی کام شیطان کا
پنجابی میں کالھی اگے ٹوے  اور انگلش میں
Haste Makes Waste
محاورے اور اسی طرح کی ضرب الا مثال ہمارے کلائنٹ کو فوری فیصلہ کرنے سے
روکتی ہیں ۔ اب اپنی قوت فیصلہ میں اس کمی کو اعتراضات کے پردے میں چھپانا چاہتا ہے۔ اس
کی ایک زندہ مثال میرا ایک سیمینارہے
مجھے نیٹ ورک مارکیٹنگ کے ایک سیمینار میں مہمان مقرر کے طور پر بلایا گیا۔ مجھے تے
پہلے جومقرر سٹیج پر تھے انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کمپنی دنیا کے ایک سو سے زائد
ممالک میں کام کر رہی ہے اور ایک مانی ہوئی کمپنی ہے۔ اسی دوران حاضرین میں سے ایک نے
سوال پوچھنے کے لیے ہاتھ کھڑا کر دیا  مقرر کی اجازت پا کر ان صاحب نے سوال کیا کہ کیا آپ کی
کمپنی انگلینڈ میں کبھی کام کر رہی سے مقرر کی اثبات  میں نے سر کو دیکھ کر ان صاحب نے کہا کہ
مجھے اپنے لندن آفس کا فون نمبر دیکھے گا۔ مقرر نے کہا کہ وہ تو ابھی میرے پاس نہیں ہے۔ تو وہ
صاحب یہ کہہ کر بیٹھ گئے کہ برا وکرم بھی بنا کر کے بتادیجیے  گا ۔
اس کے بعد مجھے پر بلایا گیا تو اپنی بات کرنے سے پہلے میں نے سوال پوچھنے والے
شخص کو مخاطب کر کے کو پوچھا: کیا آپ کا کوئی دوست عزیز یا رشتہ دار ایران میں رہتا ہے جسے آپ
اس کمپنی کا بتانا چاہتے ہیں؟
ان صاحب نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں۔
تو میں نے حیرانی سے پوچھا کہ پھر آپ نے اندرا آفس کا فون نمبر کیوں بانک
تو وہ صاحب کندھے اچکا کر بولے انسان کو ایسے ہی پتا ہونا چاہیے۔
بعض اوقات ایسے ہی ہمارا پراسپیلت بے معنی اور مل اعتراضات کر رہا ہوتا ہے۔
در حقیقت پر معنی اعتراضات کر کے وہ سوچنے کے لیے مزید وقت چاہ رہا ہوتا ہے۔ بروقت
ہے جب میں اسے بتانا چاہیے کہ بیگی بارانی محاورہ ہے کہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیےاعتراضات کرنے کی نفسیاتی وجہ
لوگوں کے عقلی اعتراضات کرنے کی سب سے بڑی وہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ مو با
و التراشات اس لیے نہیں کرتے اور انہیں آپ کی بات پسند نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ بات آپ
نے کی ہے۔ انہیں اعتراض اس بات پر ہوتا ہے کہ اتنی اچھی بات اور وہ آپ کی زبانی
وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ آپ کا آئیڈیا ہے اس لیے انہیں اس پر تنقید کرنے کا مکمل حق
حاصل ہے۔ اس کے برعکس جو بات بھی آپ کا پراسپیکٹ کہے اس کے نزدیک وہ بات درست
ہے۔ کیونکہ اپنی کہی ہوئی بات سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرتا۔
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ اپنی بات اپنے پراسپیکٹ کے منہ سے نکلوائی جائے۔ ایسا
طریقہ اختیار کیا جائے کہ جو آپ کہنا چاہتے ہیں وہ آپ کا پراسپیکٹ خود کہہ دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *