پاجاسراغ زندگی
ہر سال نومبر کے پہلے اور دوسرے ہفتے میں لاہور سے چالیس کلومیٹر دور ایک میدان میں عظیم الشان تبلیغی اجتماع منعقد ہوتا ہے ،جوکہ رایونڈ مرکز کے نام سے شہرہ ایام ہے ۔ اس مرکز کی زمین سینکڑوں ایکڑ پر محیط ہے ۔ اجتماع میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کثیراور ہر آنے والے سال بڑھنے کی وجہ سے طعام وقیام ،انتظام وانصرام ، میں دقت کاسامنے کرنا پڑرہا تھا ، جس کو ملحوظ خاطر رکھ کروہا ں کے عہدداروں نے باہمی مشاورت سے اجتماع کو چار حصوں میں منقسم کر دیا ہے ۔ یہ تقسیم آبادی کے تناسب،علاقائی اور جغرافیائی بنیاد پر کر دی گیَ ہے ، تاکہ لوگوں کی آمدورفت میں آسانی ہو اور تکلیف کا سبب نہ بنے ۔
اس اجتماع میں پوری دنیا سے لوگ جوق درجوق شرکت کرتے ہیں جس میں ہندوستان ،بنگال دیش ، افغانستان او ردیگر ایشایائی ممالک سرفہرست ہیں ۔ خوش بختی سے اس سال مجھے بھی اجتماع میں شرکت کرنے کی توفیق ملی ۔ اجتما ع کا آغاز چار نومبر بعد نماز عصر سے ہوا تھا ،یوینورسٹی کی تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے میں چار نومبر ہی کو شرکت نہ کرسکا البتہ پانچ نومبر کو یونیورسٹی سے فراغت حاصل کر کے شام چھ بجے بزریعہ ٹرین لاہو ر روانہ ہوا،چونکہ اجتماع تین دن تک جاری وساری رہتا ہے اس لیے اگلے دن کی شرکت بھی باعث قلبی اطمینان تھی ۔ جیسے ہی میں اجتماع کے داخلے گیٹ سے اندرداخل ہواجو منظر میری آنکھوں نے دیکھاوہ مسرورکن ،سحرانگیز اور دل فریب تھا ،ایک ایسا جہاں آباد تھا جہاں روحانیت ،بہترین معاشرت اور سکون کاسامان میسر تھا ۔ طبعیت پر ایک ایسی کفیت طاری تھی جدھر زندگی کے غماز اوجھل تھے ۔ احساس وقربانی کے جذبہ کولب بام حاصل تھا ،اپنی گزری زندگی پر پچھتاوا اور بیزاری تھی،زندگی کی حقیقت اور مقصد سے آشنائی تھی ۔ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کو دوام تھا ۔ بہرکیف ان جذبات واحساسات کو میں قلم بند نہ کرسکوں گا اس لیے ان تاثرات کو خود تک ہی اکتفا کرتا ہوں ۔
ہندوستان اور بنگال دیش سے جید ،مدبرعلمائے کرام تشریف فرماتھے ۔ علمائے کرام نے بیانات سلسلہ وار کردیا ان سب کے بیانات احاطہ قلم نہ لاسکوں گا البتہ علمائے کرام کے نام کا تذکرہ ضرور کروں گا ۔ ہندوستان سے مولانا ابراہیم دیولہ ؒ،مولانا عبدالرحمنؒ،مولانا اسمعیل ؒگودھرا،مولانازہیرؒصاحب ،مولانافاروق ؒاور حضرت مولانالاٹ ؒصاحب ،جبکہ بنگال دیش سے مولانا ربیع الحق ؒصاحب اور پاکستان سے تبلیغ جماعت کے امیر مولانا نذرالرحمن ؒاورمولانا خورشید ؒنے بیانات کیے ۔ عرب وعجم یکساں طور پر اجتماع سے مستفید ہورہے تھے کیونکہ عرب ممالک سے تشریف لاے مہمانوں کے لیے الگ سے عربی زبان میں بیانات کیے جاتے تھے،غرض اجتماع کو ایک سہل اور احسن طریقے سے آگے بڑھایا جارہا تھا ۔ پاکستان اور ہمسایہ ممالک کے کالجوں ،یونیورسٹیوں ،مدرسوں سے اجتماع میں شرکت کرنے والے طلبہ،معلمین ،فضلہ کو چھ نومبر بروزہفتہ صبح دس بجے الگ لکچر کا انتطام کیا گیا تھا ۔ لکچر ہندوستان کے علی گڑھ سے تشریف لائے ڈاکٹر عبدالمنان نے دیا ۔ ڈاکٹر صاحب علی گڑھ میں ہی معلم کے فرایض سرانجام دے رہے تھے اسی سال آپ عہد منصبی سے سبکدوش ہوئے ہیں ۔ آپ کا لکچر تشنگان علم رکھنے والوں کے لیے نہایت موثر ،مدلل اور حقائق پر مبنی تھا ۔ کیونکہ ڈاکٹر اس لکچر میں اپنی زندگی میں پیش آنے والے واقعات،تجربات کا خلاصہ علم کی روشنی میں بیان فرمارہے تھے ۔ آپ نے سب سے پہلے مقصد پر بات کی ، کسی بھی امور میں کامیابی کے لیے مقصد متعین کرنا ضروری ہے ۔
مقصد کے بٖٖغےر انسان عبث یعنی بےکار ہوجاتا ہے،وہ اپنی صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں استمال میں نہیں لاسکتا ۔ ایک عام انسان کو دنیاو ی کامیابی کے لیے مقصد کا تعین کرنے سے پہلے زندگی کا مقصدتعین کرنا ضروری ہے ۔ کیونکہ دینا کی کامیابی کا دارمدار بھی زندگی کا مقصد سے وابستہ ہے ۔ عام فہم انسان کے مطابق کامیابی کی تعریف ’اس کے پاس مال ومتاع ،شہرت اور زندگی کی ہر سہولت میسر ہونا ہے ۔ یہ انسان کی خودساختہ تعریف ہے جس کا روز جزاوسزاسے کوتعلق نہیں ۔ کیونکہ ان چیزوں کی بنیاد پر وہاں چین یا استحقاق مہیا نہیں ہونا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کی تعریف ایک الگ انداز سے کی ہے جو کہ حقیقی تعریف ہے ۔ سورۃ آل عمران آیت نمبر(۱۸۵ )میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کی تعریف کچھ یوں کی ہے ۔ جس کا میں ادھر مفہوم ادا کررہا ہوں ۔ کامیاب ہے وہ شخص جس کو جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کرا دیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ تعریف مادی وسائل ، دنیاوی مال ومتاع سے خالی ہے ۔ اس لیے کہ انسان اور یہ چیزیں اس دنیا میں محدود مدت کے لیے ہے ،’اس کے بعد ان چیزوں کو فنا ہونا ہے ۔ سو انسان کو دنیا میں ایسے اعمال کرنا چاہیے جس سے اللہ راضی ہو اور ’اخروی نجات کا سبب بنے کیونکہ آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لیے ہے ۔ آپ نے حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒکی کتابِ “پاجا سراغ زندگی “کا تذکرہ کیا پھر اس میں دو چیزوں کی ذکر کی ایک اخلاص اور دوسرا اختصاص ۔ پاجا سراخ زندگی ایک لاریب کتاب ہے ۔
جس مں حضرت مولانا ابوالحسن ندوی ؒکے دارلعلوم ندوۃعلما کے تعلیمی سال کے آغاز اور اختتام پر کیے سینکڑوں تقاریر ہیں جو آپ نے وہاں کے طلبہ سے کیے ہیں ۔ اس کتاب میں آپ نے اپنی زندگی کا ناجوڑ بیان کیا ہے ۔ آپ پچیس دسمبر1963کی ایک تقریر میں ندوۃ علما کے طلبہ سے فرماتے ہیں ۔ اگر طلبہ اپنی زندگی میں تین چیزوں کو اپنائے گے تو ثریا سے بھی آگے پہنچ جائیں گے گویا وہ عصری یا اسلامی تعلیم حاصل کررہے ہو ۔ ایک یہ کہ طلبہ میں اخلاص آجائیے یعنی اللہ کو راضی کرنا ،اس کو پالن ہار ماننا ،خلق خدا کی خدمت کا مسمم ارادہ کرنا اور لوگوں سے نفع رسانی والا معاملہ فرمانا، ،اب اس کے لیے نیت کا درست کرنا ضروری ہے کیونکہ اعمال کا دارمدار نیت پر ہے ۔
دوسرا اختصاص ہے جس کا میں انگریزی میں ترجمہ سپر اسپیشلسٹ
سے کررہا ہوں ،یعنی طلبہ کو مقررہ مضامین یاشعبے میں کمال حد تک مہارت حاصل ہو ۔ وہ مقررہ مضامین میں پوری گرفت حاصل کریں گے تو احساس کمتری سے بری ہوجائیں گے اور ساتھ ہی ا’ن کے عزت نفس کا استحصال نہیں ہوگا جس بھی شعبے سے منسلک ہوں گے عزت وشرف والی زندگی میسر ہوگی ۔ اختصاص حاصل کرنے کے لیے معلمین سے اچھا ربط اور اخلاق کو اونچا رکھنا اور ساتھ خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا کرنا پڑے گا ۔ تیسرا عزم قربانی کا جذبہ ہے ۔ ایک انسان اپنی مقصد میں تب ہی کامیاب ہوسکتا ہے جب تک وہ عزم کو پختہ رکھے ۔ اپنے آپ کو محنت ،جفاکشی کا عادی بنانے کے ساتھ ساتھ عزم کو شرشار رکھے ۔ عزم انسان کو مایوسی سے نکل دیتا ہے اور مزید ترقی کا جذبہ دیتا ہے ۔ عزم مقصدکے لیے روح کاکردار ادا کرتا ہے ۔ طلبہ گویا وہ عصری علم سے منسلک ہو یا ’اخروی اپنے معاملات کے لیے اوقات کار کی ترتیب بناے ۔ جو طلبہ ترتیب نہیں بناتے ’ان کی زندگی طرح طرح کی پریشانیوں کی آماج گاہ بن جاتی ہے کیونکہ وقت پر کام نہ کرنے کی وجہ سے مسلسل اضافہ ہو کر بوجھ بن جا ئیے گا اور آخر وہ طلبہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے مولانا ابوالحسن ؒکی کتاب سے کچھ اسی انداز میں تذکرہ کیا اس لیے مقصد کو متعین کیجےاور اوقات کا ر کی ترتیب بنالیجے۔