حکومت 17 نومبر کو مشترکہ اجلاس میں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کرانے کا بل پارلیمنٹ سے منظور کر لیا جیسے بھی ہو لیکن آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہونگے۔ اپوزیشن نے تو بہت کوششیں کیں کہ یہ بل منظور نہ ہوجاۓ لیکن ان کی کوشش ناکام ہوگئ۔ کسی نے بل کے کاپیاں پھاڑ دی تو کسی نے سپیکر کے ساتھ باتوں کی تکرار کی، کسی وزیراعظم کے سامنے احتجاجی مظاہرے کے طور مختلف نعرے لگائے لیکن کام نہ ہونے کی وجہ سے بالآخر اپوزیشن نے پارلیمنٹ سے واک آؤٹ کی۔
حکومت نے اپوزیشن کی واک آؤٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دڑادڑ بل پاس کرتے رہیں۔پارلیمنٹ کے اس مشترکہ اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی حمایت میں 221 تھے جبکہ مخالفت میں 203 ووٹ تھے۔ شھباز شریف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہم یہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین بل کو سپورٹ کورٹ میں چیلنج کرینگے حالانکہ یہ بہت مشکل ہوگا کہ سپریم کورٹ اس کو نامنظور کر دے کیونکہ یہ اختیار عدالت کے پاس نہیں ہے کہ پارلیمنٹ سے منظور کردہ بل کو ختم کردے۔ عدالت تو صرف قانون کی تشریح کرتا ہے۔ باقی قانون بنانا تو پارلیمنٹ کا کام ہے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بل دراصل حکومت اپنے لیے آئندہ انتخابات میں کامیابی کیلئے پاس کیا ہے کیونکہ اس میں دھاندلی کرنے کے بہت زیادہ وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمارےملک میں زیادہ تر لوگ اس ٹیکنالوجی سے ناواقف ہیں چاہے تعلیمی یافتہ لوگ کیوں نہ ہوں وہ بھی اس کے طریقہ کار سے ناواقف ہیں اور حاص کر عوام تو اس بالکل ناواقف ہیں۔ اور دوسری اہم بات کہ جس ملک میں الیکٹرانک ڈیجیٹل مشین پر پورا پیٹرول نہ ملے، ڈیجیٹل سکیل کے ذریعے سودا برابر نہ ملے، تو وہاں پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا کیا حشر ہوگا۔
وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کل پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ کہا کہ ملک میں پہلی بار اوورسیز پاکستانیوں ( بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی) کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ بلاول زرداری نے یہ کہا کہ کچھ ارکان اسمبلی کو زبردستی لے آئے ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے عامر لیاقت حسین نے یہ انکشاف کیا کہ ہم آۓ نہیں بلکہ لاۓ گئے ہیں اور بہت اہتمام کے ساتھ لاۓ گئے ہیں۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ بل پاس کرنا انتہائی ضروری تھا کیونکہ 19 نومبر کو نیا ڈی جی آئی ایس آئی کی تعینات ہوگی اور اس بات کی کیا گارنٹی کہ وہ حکومت کے تعاون کرے یا نہ کرے۔ اسلیے عمران خان نے 17 نومبر کو مشترکہ اجلاس بلاکر یہ بل پاس کردیا۔اسکے علاوہ صرف یہ نہیں بلکہ جب اپوزیشن نے اسمبلی سے واک آؤٹ ہوتے ہی 33 سے 50 تک اور بلز مشترکہ اجلاس میں منظور کروائے گئے۔ اور اسی طرح اپوزیشن نہ چاہتے ہوئے بھی اب ٹپہ نہیں لگاۓ گا بلکہ بٹن دبائیں گا۔