جب بھی کہا جاتا ہے کہ ہماری زندگی بے مقصد ہے تو ہم چوکنے ہوجاتے ہیں اوریہ سوچنا شروع کرتے ہیں کہ آخر بامقصد زندگی کا تصور کیا ہے،اور ایسی زندگی کیسی شروع کی جاتی ہے۔اگر ہم بامقصد زندگی کی تلاش میں ہیں تو ہمیں یہ بنیادی باتیں زیر غور لانا ہوں گی۔
اللہ کی رضا۔۔۔۔
زندگی کا سب سے مقدم اور ضروری پہلو یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو دیکھیں کہ کہیں یہ حیات مستعار۔زندگی دینے والے کی نافرمانی میں تو نہیں گزر رہی اگر ایسا ہے تو ہم فورا اللہ کی طرف رجوع کریں، کیونکہ ستر ماوؤں سے زیادہ پیار کرنے والے کو ناراض کرنا بے وقوفی ہی ہو سکتی۔دوسری بات یہ کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے خود ہماری زندگی کا مقصد” الا لیعبدون “سے تعبیر فرمایا ہے ۔اس لیے ہماری ذمہ داری سب سے پہلے اللہ کی رضاء ہے،جب ہی ہماری زندگی کا مقصد متعین ہو سکتا ہے۔
آپﷺ سے محبت۔۔۔۔
نبی مکرمﷺ سے محبت ہماری زندگی کا مقصد اور اولین ترجیح ہونی چاہئے۔کیونکہ آپﷺ کی سیرت اور زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے،اور یہ اظہر من الشمس ہے کہ آپﷺ کی زنگی ناصرف بامقصد تھی بلکہ آپﷺ ی زندگی کو دیکھ کر اللہ نے ہماری زندگی کا مقصد منتخب فرمایا۔ زندگی کی ہر پہلو میں آپﷺ کی تعلیمات ہمارے مقصد کی پہلی سیڑھی ہے۔معاشرتی زندگی کے نشیب وفراز،معاشی زندگی کے اصول،اخلاقی زندگی کی اونچ نیچ،اور اجتماعی زندگی میں ہمدردی ہماری زندگی کو با مقصد بناتی ہے۔
فلاحی سرگرمیاں۔۔۔۔
کوئی بھی معاشرہ باہمی تعاؤن اور خدمت کے بغیر نہیں چل سکتا۔ہم تب تک ایک انجانے منزل کی طرف جا رہے ہیں جب تک ہم دوسروں کے دکھ ،درد اور ان کے غم آپس میں بانٹ نہیں لیتے اور یہی با مقصد زندگی کا پیغام بھی ہے۔کسی بھی شخص اور کسی بھی معاشرے میں بلا تفریق فلاحی کام انجام دینا ہمارا بڑا مقصد ہونا چاہئے۔اور یہی آپﷺ نے ہمیں فرمایا کہ”خیرالناس من ینفع الناس”تم میں بہتر وہ ہے جو دوسروں کو نفع دیں۔ اگر ہم ایسا کریں تو ہم ایک بڑے مقصد میں کامیان قرار پاۓگے ورنہ اسی طرح مقصد سے بے خبر انجانے سفر کے لیے ہم تیار رہیں۔
تعلیم کا حصول۔۔۔۔۔۔
تعلیم ایک زیور اور لباس ہے جس طرح تعلیم کا مقصد بہترین شہری پیدا کرنا ہے اسی طرح با مقصد زندگی کے لیے بھی تعلیم کا حصول ضروری قرار پاتا ہے۔دن رات،اچھے برے،حق باطل،درست غلط،سچ اور جھوٹ میں اگر فرق کراتا ہے تو وہ تعلیم ہے. انسان تاریکی سے روشنی کی طرف آنا چاہتا ہے تو تعلیم چراغ کا کام کرتا ہے۔جس سے زندگی کا مقصد صاف دکھائی دیتا ہے۔
حقوق العباد کی ادائیگی۔۔۔۔
ہماری زندگی کو گمنامی میں دکھیلنے والی چیز حقوق العباد سے چشم پوشی ہے ۔ہم آج تک یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ دنیا میں بستے انسانوں کی آرزوئیں ہماری منظر ہوتی ہیں اور ہماری عدم دلچسپی کی وجہ سے ان کی امیدوں خاک میں مل جاتی ہیں۔سب سے پہلے انسانیت کے درجے میں حقوق کا خیال رکھا جاۓ جو مذھب سے بالا تر ہوکر پروان چڑھے۔اس کے بعد مذھب اور رشتے کو مد نظر رکھا جاۓ۔اجتماعی زندگی میں پڑوسیوں اور اہل محلہ کے حقوق اگر ادا ہو جائے تو ہم اپنی زندگی کو بامقصد بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔یہی اسلام کا منشاء اور اللہ کا حکم ہے۔
ایثار۔۔۔۔۔۔
آپﷺ کی زندگی کا سب سے نمایاں وصف ایثار تھا ۔ایثار کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود پر دوسروں کو ترجیح دیں ۔اللہ تعالی نے اسی وصف کی وجہ سے صحابہؓ کی تعریف کرتے ہوۓ ارشاد فرمایا”یوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصا”کہ یہ صحابہ دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود ضرورت ہو۔آپﷺ کی زندگی بھی ایثار سے بھری پڑی ہے جہاں اپنی اولاد تک پر اصحاب صفہ کو ترجیح دی۔اگر یہ بنیادی صفات ہماری زندگی میں آجائے تو ہماری عاقبت سنور جائے گی اور ایک با مقصد زندگی ہمیں مل جائے گی۔
شاہ حسین سواتی