Skip to content
  • by

“زوال غرناطہ سے فلسطین تک”

دنیا کا اک اصول ہے جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے کہ یہاں سے اک نسل جا رہی ہوتی ہے تو دوسری نمودار ہو رہی ہوتی ہے۔ اک قوم کا عروج دوسری قوم کا زوال ہوتا ہے۔ یہی عروج ہی اصل میں زوال ہوتا ہے کیونکہ آپ نیچے سے ترقی کرتے کرتے عروج کی بلندیوں تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن یہ عروج آخری سٹیج ہوتی ہے اس سے آگے اور کوئی سیڑھی نہیں اس لیے آپ کو اک دن نقطہء عروج سے زوال کی طرف روانہ ہونا ہی ہوتا ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کب تک اپنے آپ کو نقطہء عروج پر براجمان رکھ سکتے ہیں۔ اس دنیا میں کئی قومیں اور ملک عروج تک پہنچے اور پھر آہستہ آہستہ واپس زوال کی جانب۔

وہ الگ بات کہ کئی قومیں زیادہ دیر تک صاحب مسند اقتدار رہیں اور بعض تھوڑی دیر۔ اس لحاظ سے مسلمانوں کی تاریخ بھی دوسری اقوام سے مختلف نہیں۔ مسلمان بھی ماضی میں نقطہء عروج پر براجمان رہے لیکن پھر عیش و عشرت، نا اہل جانشینی اور دنیاوی خواہشات میں مگن ہوتے گئے یہاں تک کہ موجودہ دور کی اس حالت زار کو آ پہنچے۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں جب امیہ دور خلافت میں دو سپہ سالاروں کو (اک کو شمالی ایورپ سپین دوسرے کو برصغیر) بھیجا گیا۔ طارق بن زیاد اک بربر زادہ غلام تھا جس کو امیہ خلیفہ نے اک مہم کا سپہ سالار بنا کر سپین کی جانب روانہ کیا۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان اپنے نقطہء عروج کی جانب رواں تھے جبکہ عیسائی اپنے زوال کی جانب۔ یا یوں کہہ لو کہ سپین زوال کی طرف۔ یہاں سپین میں داخل ہونے سے پہلے طارق بن زیاد نے Gibraltar Strait پر کھڑے ہو کر مشہور زمانہ معقولہ “کشتیاں جلا دو، کشتیاں جلا دو” کہا اور فوج سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کے پاس واپسی کا کوئی رستہ نہیں۔ خیر اس کے بعد مسلمانوں نے سپین فتح کیا اور 711 عیسوی میں عیسائیوں کی حکومت کا خاتمہ اور مسلمانوں کی حکومت کا آغاز ہوا۔ تب یہاں سپین میں رہنے والوں کا برا حال تھا لوگ میلے کچیلے اور بدبودار ماحول میں جی رہے تھے۔ تب ان کے چرچ نے غسل کرنے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی حکومت کے بعد یہاں معاشرتی اصلاحات کی گئیں۔ یہاں تعلیمی انقلاب آیا یہاں تک کہ شرح خواندگی 100 فیصد ہو گئی۔

اسی تعلیمی انقلاب کے دوران سپین کے مسلم دور میں ابن رشد، الفارابی، ابن بیطار اور اسحاق کندی جیسے نامور سائنسدان اور فلاسفر پیدا کیے۔ یہاں مسلمان ترقی کرتے کرتے عروج پر پہنچ گئے۔ تب کی دنیا کی سب سے بڑی عمارتیں سپین میں بنائی گئیں۔ یہاں قصر الحمراء اور مسجد قرطبہ جیسے اعلیٰ ترین اور بلند و بانگ بلڈنگز بنائی گئیں جنکو مسلمانوں کی شان و شوکت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ قصر الحمراء کے 4316 ستون، 4 میل لمبا اور 3 میل چوڑا چھت والا کورڈ ایریا تھا۔ اس کے پندرہ ہزار گیٹ، چھ ہزار کنیزیں، تقریباً 14000 ملازم اور تقریباً 14000 ہی فوجی تھے جو اسکی حفاظت پر مامور تھے۔ اسکی چھت میں سونا، ہیرے، جواہرات اور یاقوت جڑے ہوئے تھے۔ دوسری جانب مسجد قرطبہ کے تقریباً 1400 ستون تھے۔ اس مسجد کی عمارت رات کو 10,000 چراغوں سے روشن کی جاتی تھی۔ قصر الحمراء کی طرح اس مسجد کی عمارت بھی اپنا کوئی ثانی نہ رکھتی تھی۔ اس کی چھت اور منبر پر ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے جو کہ اس وقت مسلمانوں کی فن تعمیر اور جاہ و جلال کا پتہ دیتے تھے۔ یہ مسلمانوں کا سپین میں عروج کا دور تھا جسکو اک دن زوال آنا ہی تھی۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ یہ عروج آہستہ آہستہ منڈلانے لگا۔ مسلمان آپسی دشمنی میں مبتلا ہونے لگے۔

عربوں اور مراکش کے بربر زادوں میں اختلافات بڑھنے لگے۔ فتنہ واریت اپنا سر اٹھانے لگی۔ دونوں قبیلوں اور قوموں کے لوگ اک دوسرے پر فتح حاصل کرنے کے لیے انہی عیسائیوں سے مدد طلب کرنے لگے۔ آخر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ پہلے عیسائیوں نے 1236 عیسوی میں قرطبہ فتح کیا۔ پھر 1491 میں انہی عیسائیوں نے ایک لاکھ فوج کے ساتھ غرناطہ کا محاصرہ کیا اور آخر کار 1492 میں یہاں سے مسلمان حکومت کا ایسا خاتمہ ہوا کہ اک بھی مسلمان باقی نہ رہا۔ آخری بادشاہ ابو عبداللہ جب یہاں غرناطہ کے محل سے نکل رہا تھا تو رو رہا تھا۔ تب اسکی والدہ نے اسے ایسا اک جملہ کہا جسکو مور کی “آخری آہ” کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کی والدہ نے کہا، ” جس چیز کی حفاظت تم مردوں کی طرح نہیں کر سکے اس کے چھن جانے پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے کا کیا فائدہ”۔ یہاں مسلمانوں کے دور کے بعد صدیوں بعد تک مسلمانوں کی تخلیقات کا مختلف یورپی ممالک میں ترجمہ کیا جاتا رہا۔

دوسرا آ جائیں بغداد کی طرف۔ بغداد جسکو علم کا گہوارہ کہا جاتا تھا۔ بغداد وہ شہر جہاں مسلمان سائنسدانوں نے تحقیق اور سائنس کی بنیادی رکھیں۔ بغداد جہاں پوری دنیا سے لوگ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ جب دنیا کا جدید ترین علم عربی زبان میں محفوظ ہو رہا تھا۔ جیسے آج لوگ انگریزی سیکھتے ہیں ویسے تب لوگ عربی سیکھا کرتے تھے۔ یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ جہاں جس علاقے یا ملک میں دنیا کا جدید ترین علم پیدا ہو رہا ھو گا لوگ اسی کی طرف رخ کریں گے۔ جیسے آج کل امریکہ ، ایورپ اور چین کا رخ کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے اس دور عروج میں ابراہیم الفزاری، جابر بن حیان، الخوارزمی، بنو موسیٰ برادران، حنین ابن اسحاق، الرازی، اور الغزالی جیسے نامور سائنسدان اور فلسفی پیدا کیے جنہوں نے ریاضی، کیمسٹری، فزکس، جیالوجی وغیرہ میں اپنی اپنی فیلڈ میں معرکے سر انجام دیئے۔ یہ بغداد میں مسلمانوں کا سنہرا ترین باب تھا۔ پھر کیا ہونا تھا وہی ہوا جو ہوتا آیا تخت و تاج ان نا اہلوں کے ہاتھ آیا جن کو اسکی قدر کا ہی پتہ نہیں تھا۔

مستعصم باللہ جو دنیاوی رنگینیوں میں ڈوب گیا۔ جس کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ گھنٹوں اپنے محل میں پڑے ہیرے جواہرات کے ڈھیر دیکھتا رہتا۔ جس کو حرم میں موجود کنیزوں سے فرصت نہ ملتی تھی۔ جس نے بجائے اپنی فوج کو توانا اور منظم رکھنے کے انکو نظر انداز کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ انکو انکی ماہانہ تنخواہیں ادا کرنے میں بھی لیت و لعل کرنا شروع کر دیا۔ فوج عام عوام کے ساتھ گتھم گتھا ہونے لگی۔ اسی دوران میں اس کے مشیر خاص ابن الکمی نے اس صورتحال کا خوب فائیدہ اٹھایا اور غداری کرتے ہوئے ہلاکو خان سے مل گیا۔ بادشاہ کے مخلص لوگ معتصم باللہ کو سمجھاتے رہے کہ ہلاکوخان کی فوجیں بغداد کی طرف بڑھ رہی ہیں لیکن وہ اپنے حرم کی رنگینیوں میں مگن رہا اور اس جانب کوئی توجہ نہ دی۔ آخر کار جنوری 1258 کو ہلاکوخان کی منگول فوج نے بغداد کا محاصرہ کیا اور یہاں قتل عام کرتے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا گیا۔ انسانی کھوپڑیوں کا مینار بنایا گیا۔ ہلاکوخان جب محل میں پہنچا تو کھانا طلب کیا۔ کھانے کے ساتھ ساتھ اس نے اک ٹرے میں ہیرے جواہرات بھی منگوائے اور ان کو معتصم باللہ کے سامنے رکھ دیا کہ کھاؤ۔ اس نے کہا کہ میں ان کو کیسے کھا سکتا ہوں۔ تب ہلاکوخان نے کہا کہ اگر تم انہیں کھا نہیں سکتے تو ان کو جمع کیوں کیا؟ انکو عوام کی فلاح و بہبود پر کیوں نہ خرچ کیا کہ ضرورت کے وقت یہ آپ کا ساتھ دے سکتے؟ ان کو اپنی افواج پر کیوں نہ خرچ کیا گیا کہ وہ بہادری سے جنگ لڑتے؟ ان سے جدید اسلحہ اور توپ خانے کیوں نہ بنائے گئے؟ آخر میں ہلاکوخان نے معتصم باللہ کو قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں کے قدموں سے روند کر مار ڈالا۔ اس کے بعد معتصم باللہ کے غدار ابن الکمی جو بڑے عہدے کی آس لگائے بیٹھا تھا کو بھی یہ کہہ کر موت کی ابدی نیند سلا دیا کہ جو اپنوں کا نہ بن سکا وہ ہمارا کیا بنے گا؟ ایک بار پھر یہاں مسلمان عروج سے زوال کا شکار ہوئے اور منگول عروج پر۔

تیسری جانب آ جائیں مغلیہ سلطنت کی طرف۔ مغلیہ سلطنت کی بنیاد 1526 میں ظہیر الدین بابر نے رکھی۔ تب یہاں ہندو راجوں مہاراجوں کے عروج کا زمانہ تھا جو کہ مغلوں کے آنے کے بعد ڈگمگاتے ہوئے معدوم ہونے لگی۔ ظہیر الدین بابر کے دور میں قائم ہونے والی مغلیہ سلطنت ہمایوں سے ہوتی ہوئی اکبر کے دور میں اپنے عروج کو پہنچی۔ اکبر جس نے تقریباً 12 سال کی عمر میں تخت و تاج سنبھالا۔ جیسے جیسے اکبر جوان ہوتا گیا ویسے ویسے مغلیہ سلطنت بام عروج تک پہنچتی گئی۔ اس کے بعد جہانگیر سے ہوتی ہوئی شاہجہان کے ہاتھوں میں پہنچ گئی جب برصغیر اپنی ثقافت ،تہذیب اور تعمیرات کے شاہکار تعمیر کیے گئے تاج محل اسکی اک مثال ہے۔ شاہجہان کے بعد ان کے بیٹوں کی آپسی لڑائی کے بعد تخت و تاج اورنگزیب عالمگیر کو نصیب ہوا۔ اکبر کے بعد اگر مغلیہ سلطنت کی ڈوبتی کشتی کو کسی نے سہارا دیا تو وہ اورنگزیب عالمگیر ہی تھا جسکے دور اقتدار کے بعد مغلیہ سلطنت لڑکھڑاتی ہوئی انیسویں صدی تک پہنچی۔ اس دوران میں کوئی ایسا قابل ذکر مغل بادشاہ نہ آیا جو اسکو سنبھال سکتا۔ محمد شاہ رنگیلا نے تو عیش و عشرت کی حدیں ہی پار کر دیں جس کے محل کی کنیزوں کی تعداد لامحدود تھی اور اس کے شوق بھی عجیب۔ آخر کار 1857 میں وہ انگریز جو جہانگیر کے دور میں تجارت کی غرض سے آئے تھے انہوں نے بہادر شاہ ظفر کی زیر کمان فوج کو شکست دی اور بہادر شاہ ظفر کو قید کر کے رنگون لے گئے جہاں ناشتے میں بادشاہ کو ان کے پوتے پوتیوں کے کٹے سر پیش کیے گئے۔ وہ مسلمان مغلیہ سلطنت جو سولہویں صدی کے اوائل میں اپنے نقطہء عروج پر پہنچ گئی تھی 1857 میں زوال کا شکار ہو گئی۔ یہاں سے مغلیہ سلطنت کا زوال اور انگریز سرکار کا عروج شروع ہوا۔

متذکرہ بالا مسلمانوں کے زوال کی چند مثالوں کے پیش نظر آپ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو پرکھیں تو کیا وہ تمام اسباب جنکی وجہ سے مسلمان سلطنتیں زوال کا شکار ہوئیں آج ہم میں موجود نہیں ہیں؟ کیا آج مسلمان آپسی لڑائی کا شکار نہیں جیسے سپین میں تھے؟ کیا آج کے مسلمان اک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے غیر مسلموں سے مدد نہیں لے رہے جیسے سپین میں کیا؟ کیا آج ہم اخلاقی پستی کا شکار نہیں؟ کیا آج ہم تعلیمی پستی کا شکار نہیں؟ کیا آج ہم غداری سے ڈسے نہیں جا رہے جیسے دور بغداد میں ڈسے گئے تھے؟

کیا آج ہم مسلمان سائنسی ترقی میں پست ترین مقام پر نہیں؟ کیا آج کوئی بھی مسلمان ملک اس تگ و دو میں ہے کہ وہ جدید دنیا میں کوئی معرکہ سرانجام دے سکے؟ افسوس تو یہ ہے کہ آج کے دور میں ہم سوئی سے لیکر موبائل، گاڑیاں، ٹیکنالوجی وغیرہ ہر چیز میں غیر مسلم ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اک طرف ہمارے مسلم فرمانروا ممالک اسرائیل سے چھپے اور کھلم کھلا تعلقات استوار کر رہے ہیں تو دوسری جانب یہی اسرائیل ہمارے فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور ماووں کے گلے کاٹ رہے۔ عیسائی اور یہودی جدید ٹیکنالوجی کے نت نئے تجربات کر رہے اور ہم آج بھی شیعہ سنی کی لڑائی سے باہر نہیں نکل پا رہے۔ جب ہلاکو خان بغداد پر چڑھائی کر رہا تھا تو تب علماء اکرام اس بحث میں مبتلا تھے کہ کوا حلال ہے یا حرام۔۔۔۔۔یقین جانو آج کے دور میں بھی کوئی خاص فرق نہیں اشرافیہ ایسے ہی عیش و عشرت میں مبتلا ہیں جیسے محمد شاہ رنگیلا تھا۔ ان حالات میں اسرائیل ہمارے نہتے فلسطینیوں شہید نہ کرے تو اور کیا کرے؟؟؟؟ وہ وقت دور نہیں کہ یہ زمانہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے اور ہم ابو عبداللہ کی طرح غرناطہ کے محل سے روتے ہوئے نکلیں۔۔۔۔اور غیر مسلم ہمیں کہیں کہ اب رونے کا کیا فائدہ؟
شوکت علی۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *