دوسری عالمی جنگ کے دوران بہت سے لوگ رات گئے اور صبح سویرے ریڈیونشریات میں جرمن پراپیگنڈا سن کر حیران ہو جاتے جن میں سمفنی آرکسٹرا کی آواز بھی صاف سنائی دیتی- یو ایس سگنل کور ٹیکنیشنز کو شک تھا کہ کوئی بہتر ریکارڈ نگ آلہ استعمال کیا جا رہا تھا اور 1945 ، میں دشمنیاں ختم ہونے کے بعد اس قسم کی مشینیں دریافت کر کے تجزیہ کے لیے امریکہ لائی گئیں ۔
اصل میں جرمنوں نے “میگنیٹوفون “کا ایک بہتر ورژن استعمال کیا جو 19000 ہرٹز ( سائیکلز فی سیکنڈ) تک کی فریکوینسی کو پکڑ سکتا تھا۔ اس فریکوینسی پر گڑ بڑ بہت کم تھی اور نشریات بہت واضح ہوتیں۔“میگنیٹوفون “ کے پیٹنیٹس یوایس ایلین پراپرٹی آفس کو دیے گئے لیکن کوئی بھی شخص اپنی مشین بنانے کے لیے اس محکمےسے بآسانی اجازت لے سکتا تھا۔ تاہم، چند ایک لوگوں نے ہی ایسا گیا۔ بعداز جنگ امریکہ میں دائر ریکارڈر مقبولیت حاصل کر رہا تھا۔ ایک دو کمپنیوں نے اپنی مصنوعات مارکیٹ میں پیش کیں۔ تا ہم ، وسیع رحجان پیدا نہ ہو سکا ۔
سنہ 1946 ء میں ٹیپ ریکارڈر توجہ کا موضوع بننے گا۔ اس دور میں “بنگ کراس بائی” نے ٹیپ ریکارڈنگ کے میدان میں اہمیت حاصل کر لی ۔ وہ ریڈیوپر گانے اور لطیفوں کے پروگرام بھی پیش کرتا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ ریکارڈ شدہ میوزک کو پروگرام کے دیگر حصوں کے ساتھ ملا جلا دیا جائے ۔ بدقسمتی سے اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والی ٹرانسکرپشین ڈ سکس نشریات میں کافی شور پیدا کرتی تھیں اور آواز کی کوالٹی کافی خراب ہوتی ۔ جب کراسبی نے ضبط شدہ جرمن ریکارڈرز کی آواز سنی تو فوراَ محسوس کر لیا کہ اسے بس ٹیپ کی ہی ضرورت تھی ۔ شور پیدا ہونے کی صورت میں اسے آسانی سے کاٹااور دوبارہ ریکارڈ کیا جا سکتا تھا۔ جیک بینی اور گرو چو مارکس بھی اپنی نشریات میں ٹیپ ریکارڈ نگ استعمال کرنے لگے ۔
رینجرٹون, میگنی کارڈ اور ایمپیکس نامی تین کمپنیوں نے جرمن ماڈل کی بنیاد پراپنے اپنے ٹیپ ریکارڈ رز بنانا شروع کر دیے۔ 1950 ء میں وہ یکارڈنگ، ریڈیو اورموشن پکچر سٹوڈیو میں وسیع پیمانے پر استعمال ہورہے تھے اور انہوں نے ڈسک اور آپٹیکل ریکارڈرز کی جگہ لے لی ۔ منی سوٹا ما ئنننگ اینڈ مینوفیکچرنگ کمپنی (3ایم) نے بہتر ریکارڈنگ فارمولے بنانے کا کام شروع کیا۔ اس نے ایک نیا میگنیٹک آکسائیڈ بنایا جس نے آؤٹ پٹ اور حساسیت بڑھادی- نئی ٹیپ میں ایک ہموار کوٹنگ اور پلاسٹک ایسی ٹیٹ بیس بھی تھی جو آئندہ پچاس سال کے لیےصنعت کا معیار بن گئی ۔ جلد ہی ان پلاسٹک ٹیپس نے جرمن پیپر ٹیپ کی جگہ لے لی ۔
اب ٹیپ کی رفتار کو کم بھی کیا جا سکتا ہے۔ ریکارڈ ہیڈ کے اوپر سے گزرتی ہوئی ٹیپ کی رفتار ریکارڈ شدہ آڈیو بنانے میں ایک اہم عنصرتھی ۔ انسانی سماعت 30 تا15,000 سائیکلز کے درمیان والی فریکوئنسی کی شناخت کر سکتی ہے ۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا کہ ایک انچ فی سیکنڈ ٹیپ (آئی پی ایس) کی سپیڈ آواز کے تقریباَ 1,000 سائیکلز لے سکتی تھی ۔ چنانچہ 30آئی پی ایس کی رفتار پر کام کرتا ہوا ٹیپ ریکارڈ 30,000 سائیکلز پیدا کرنے کے قابل تھا۔
سنہ1940 ء کی دہائی میں ٹیپ ریکارڈ رز مارکیٹ میں فروخت ہونے لگے ۔ 1950 ء کی دہائی میں پروفیشنل شعبے میں ٹیپ کے ذریعہ ریکارڈ نگ عام ہوگئی ۔موشن پکچرز نے اس میڈ یا کا فائدہ اٹھا کر اولین سٹیریو ساؤنڈ ٹریکس بنائے جو آ ج ڈی وی ڈی مارکیٹ کے لیے فروخت ہوتے ہیں ۔ کیسٹ 1960 ء کی دہائی کی ابتدا میں متعارف کروائی گئی ۔اب کیسٹ اور ٹیپ ریکارڈرز کی جگہ دیگر میڈ یامثلاَ سی ڈی پلیئر اور ریکارڈ ر لیتے جار ہے ہیں ۔