امریکی ٹرمپ انتظامیہ جو سمجھ بیٹھی تھی کہ جنرل قاسم کا قصہ تمام کرکے وہ ایرانی حکومت پر پہاڑ توڑ دباؤ پیدا کرے گی تو اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے والا محاورہ شاید کم لگے بلکہ پیر پر بلڈوزر چڑھانا زیادہ صحیح ثابت ہوا ہے۔
یوں تو پاکستان کی اہل تشیع برادری میں ایران اور نظامِ ولایت کو لے کر اختلافات موجود ہیں لیکن یہ ایسا معاملہ ہے جس میں تمام پاکستانی شیعہ مسلمان اور تنظیمیں متحد ہیں اور آنے والی برسی میں زور وشور سے امام بارگاہوں میں مجلسوں کی تیاریاں جاری ہیں۔ بلاشبہ پاکستان میں ایرانی انقلابی نظریات نہایت تیز روی سے پھیل رہی ہے لیکن مشرق وسطی کے کئی ممالک میں یہ شدد اختیار کرگئی ہے۔ عراق کی طاقت ور دینی سیاسی جماعتیں امریکی خلا کا پر زور۔ مطالبہ کر رہی ہیں، لبنانی حزب اللہ کا جنگی جنون جاگ گیا ہے اور وہاں یمن میں انصار اللہ حوثی کے صالح الصمد کے بعد اب قاسم سلیمانی اور ایک نئے رول ماڈل بن گئے ہیں۔الغرض یوں کہوں تو امریکہ کا سلیمانی پر حملہ ایران کو کیلشیم کی گولی دینے کے برابر تھا۔
ان واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 1979 کا اسلامی انقلاب ایران ایک ایرانی انقلاب سے کچھ بڑھ کر تھا، پھر ایران ایک ملک نہیں بلکہ تمام اسلامی تحریکوں کے لیے ایک مثال بن کر رہ گیا تھا۔ ایک ایسی مثال جس نے کیپٹلزم اور کمیونسٹ کی کشمکش میں یہ ثابت کیا کہ اسلامی طرز و طریقِ کار سے حکومت کی جاسکتی ہے۔ اسی انقلاب سے متاثر کئی اسلامی تحریکوں نے سر اٹھایا مگر زیادہ تر ناکام رہیں لیکن سوائے آذربایجان کے ہر شیعہ آبادیوں میں یہ انقلابیت کا جزبہ سر شار ہے۔ اس کا اندازہ حالیہ عراقی جنگ سے لگائے کے جب 2014 میں آیت اللہ سستانی کے ایک فتوی پر عراقی فوج سے بھی زیادہ دو لاکھ کا لشکر حشد الشعبی بناڈالی۔
لہذا اگر بات کو سمیٹا جائے تو یہ اندیشہ غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ ایران ٹاکرے میں امریکہ کا ٹکر نا صرف ایک ریاست ایران سے ہے بلکہ اس کا مقابلہ ایک پورے خطے اور ایک پوری قوم سے ہے۔