غرناطہ۔۔۔۔
اندلس جو علم و عرفان کا مرکز تھا،لوگوں کا ہجوم اور درس و تدریس کی صدائیں ہر طرف بلند ہوتی تھی۔علوم و فنون کا شاہکار،اور مسلمانوں کی عظمت کا مینار غرناطہ سے علم کا سورج طلوع ہوا اور ساری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔دنیا بھر سے لوگ آتے تھے اور علمی پیاس بجھاکر دنیا میں پھیل جاتے تھے۔وہ وقت مسلمانوں کے عروج کا تھا ،ساری دنیا غرناطہ کی عظمت تسلیم کرنے پر مجبور تھی۔اور ہونا بھی چاہیے تھا۔ کیونکہ اس وقت دنیا کی عظیم ہستیاں غرناطہ کی زینت تھے۔اور پھر ایک وقت آیا جب علم کا یہ سورج جوغرناطہ سے طلوع ہو تھاموجودہ اسپین میں جا کر ڈوب گیا۔اسپین پر مسلمانوں نے صدیوں راج کیا اور اس خطے کو طارق بن جیسے عظیم مجاھد، اور اس کے بعد آنے والے مسلم حکمرانوں کی وجہ سے وہ عظمت ورفعت نصیب ہوئی کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، لیکن ہر عروج کو زوال ہوتا ہے اور اسپین نے بھی اپنوں کی سازشوں، حکمرانوں کی کوتاہیوں اور غلط پالیسیوں کے بعد مسلمانوں کے سات سو سالہ اقتدار کو ڈوبتے دیکھا ہے۔
1492ء کی صبح سورج کی کرنوں میں تمازت نہیں تھی،یہ اس وقت کی بات ہے جب مسلمانوں کو غرناطہ کی کنجیاں عیسائی حکمرانوں کے حوالے کرنا پڑیں۔ اس دن کو تاریخ نے غرناطہ کا سورج اسپین میں ڈوبتے دیکھا۔
جبکہ غرناطہ ایسے لوگو کا مسکن رہہ چکا تھا۔ غرناطہ کے وہ مشہور اور نامور لوگ جو غرناطہ کے وجہ شہرت تھےان میں چند ایک مشہور ہستیاں یہ بھی تھیں۔
۔۔۔1۔۔۔۔علوم قرآن کا عظیم مفسر جنہوں نے اپنے علوم کو قرآن کی تشریح میں صرف کیا وہ امام التفیسر امام قرطبیؒ تھے جو غرناطہ کی شان ہوا کرتے تھے۔
۔۔۔2۔۔۔عظیم ہستی اور دنیا بھر گھومنے والا سیاح ابن بطوطہ ؒجن کی سیاحت اور دریافت نے دنیا کے نقشے میں رنگ بھرا تھا یہ سورج بھی غرناطہ میں طلوع ہوا۔
۔۔۔3۔۔۔علم فلسفہ کے ماہر ، عظیم سائنسدان اور ریاضی دان علامہ ابن جبیرؒ بھی غرناطہ میں سب کی نظروں کا مرکز رہے ہیں۔
۔۔۔4۔۔۔سرجری کے موجد،امراض چشم کے ماہر ابولقاسم الزھراویؒ نے بھی آنکھ کھولی تو غرناطہ ان کے سامبے تھا۔
۔۔۔5۔۔۔عظیم فلسفی،بہترین معالج اور طبیب ابن باجہؒ کا شمار بھی غرناطہ کے عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے۔
۔۔۔6۔۔۔تاریخ دان،طبیب،سیاح اور عظیم فلسفی ابن العربیؒ ان شخصیات میں سر فہرست ہیں جو غرناطہ کے شان ہوا کرتے تھے۔
۔۔۔7۔۔۔غرناطہ میں فلسفہ اور طب کی علامت ابن رشد ؒ کا شمار بھی علوم دین کے چمکتے ستاروں میں ہو اکرتا تھا جن پر آج بھی ہمیں فخر ہے۔
۔۔۔8۔۔۔علم فلکیات کے ماہر ،حساب میں کمال مہارت رکھنے والے ابو اسحاق الزرقاویؒ نے بھی غرناطہ میں آنکھ کھولی۔
۔۔۔9۔۔۔تاریخ اور عمرانیات کے موجد ،بڑے عظیم مورخ کئی کتابوں کے مصنف علامہ ابن خلدون ؒ بھی غرناطہ کے شہزادے تھے۔
۔۔۔10۔۔۔نامور طبیب یونس الحرانیؒ،معروف جغرافیہ نگار اور نامور طبیب شریف ادریسیؒ، ہوائی جہاز کے موجد عباس بن فرناسؒ، مشہور طبیب ابن الہیثمؒ، الجبرا کے ماہر نصیرالدین طوسیؒ۔یہ وہ عظیم ہستیاں تھیں جنہوں نے ہمیں سر اٹھانے کا موقع دیا،جن کے ناموں سے ہم سر اٹھانے کے قابل ہوئے۔ان ہستیوں کے جانے سے علم کا سورج غرناطہ میں غروب ہوا جس کی تپش ہم مدتوں تک محسوس نہیں کر پائے گے۔
ان ہستیوں نے علم و فن کو محدود کرنے کے بجائے اپنے دروازے ہر شخص کے لیے کھلے رکھے۔نہ مذھب کی قید نہ رنگ ،نسل،اور رشتہ کی بندش بلکہ انہوں علم کو بنی نوع انسان کا مشترکہ اثاثہ قرار دیاجس سے ساری دنیا سیراب ہوئی۔یہی وجہ تھی کہ اسپین کے یونیورسٹیوں میں یہودی اور عیسائی طلبہ کی بڑی تعداد ہر وقت موجود رہتی۔
علم و فن کا جو سورج برسوں پہلے علم دوست سلطنت غرناطہ میں طلوع ہوا تھا وہ سورج 2 جون 1492ء کو اسپین میں غروب ہو۔اب مدتوں ہم منتظر رہے گے تب بھی یہ سورج ہم دوبارہ نہیں دیکھ پائے گے کیونکہ اب غرناطہ صرف تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
شاہ حسین سواتی