آر ایس ایس کا تاریخی پس منظر (زوہیب احمد)

In تاریخ
November 12, 2021
آر ایس ایس کا تاریخی پس منظر (زوہیب احمد)

بر صغیر پاک و ہند کی آزادی سے قبل حکومت برطانیہ اپنی حکومت کی مضبوطی اور استحکام کیلئے مختلف کام کرتی رہی تھی۔ اس میں کبھی اس کا جھکاؤ ہندوؤں کی طرف ہوتا اور کبھی مسلمان کی طرف۔ برطانیہ نے 1909ء میں دستوری اصلاحات کے ذریعے چند کونسل ممبر کے الیکشن کی اجازت دی تھی۔ ان اصلاحات میں مسلمانوں کیلئے الگ نمائندگی کی بات رکھی گئی اور کانگریس نے اس کی کلی مخالفت کی تھی۔

بیسویں صدی کے آغاز میں واضح جھکاؤ رکھنے والے دو اہم لیڈر کانگریس میں تھے، مہاراشٹر میں بال گنگادھر تلک اور بنگال میں آر ہندو گھوش۔ لیکن انہوں نے کانگریس میں یا اس سے باہر کوئی ہندو تنظیم قائم نہیں کی بلکہ کانگریس میں انتہا پسند کی حیثیت سے موجود رہے۔ پہر اس کے بعد صدی کے پہلے دہے کے خاتمے کے ہندو سبھا کے نام سے تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔شمالی ہند میں پنجاب کی صورت حال الگ تھی۔ وہاں سوامی دیانند سرسوتی ( 1883 تا 1824) کی آریہ سماج کو بڑی مقبولیت ملی۔ آریہ سماج کے مسلمانوں اور عیسائیوں سے بہت سے مناظرے ہوۓ۔ سوامی دیانند کی “کتاب ستیارتھ پرکاش” میں آخر میں ایک باب قرآن اور دوسرا باب بائبل کے خلاف شامل کیا گیا تھا جس نے دونوں فرقوں میں بڑی غلط فہمی بڑھائی۔ پنجاب میں مقامی آریہ سماجیوں نے برطانوی انتظامیہ کے نام نہاد مسلم جھکاؤ کے خلاف اور ہندوؤں کے حفاظت کیلئے پنجاب ہندو سبھا کے قیام 1970ء کا آغاز کیا۔1911ء میں پنجاب کے آریہ سماجیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اب آئندہ مردم شماری 1911 ء میں خود کو آریہ لکھانے کی بجائے ( جیسا کہ پہلے ان کا مؤقف تھا) ہندو لکھوائیں گے۔

ہندو سبھا کے لیڈر لالہ جپت راۓ نے، جو کہ ایک اہم آریہ سماجی بھی تھے پنجاب صوبائی ہندو کانفرنس میں اکتوبر 1909 ء میں کہا کہ ہندو ضروری نہیں کہ سیاسی معنوں میں بلکہ تہذیب اور ثقافت رکھنے والے گروہ کے معنی میں ” قوم ” ہیں۔ ان میں بعض آریہ سماجیوں نے قومیت کے جرمن مفہوم کو پسند کیا۔ ہندو مہاسبھا ( قیام 1916) نے ہندو مفاد کے دفاع اور حفاظت کو مطمخ نظر بنایا۔ 1920ء کے دہے میں اس کی کوشش تیز ہوگئیں۔ اس وقت ہندو مہاسبھا کی سرگرمیاں اپر پردیش(یو پی) میں کافی تیز تھیں۔ 1916ء میں کانگریس اور مسلم لیگ نے لکھنؤ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی سیاسی طور پر قریب لانے کیلئے ایک بڑی کوشش کی۔ دونوں تنظیمیں اس کیلئے راضی ہوئیں کہ

نمبر 1- سیوراج کی تائید کی جاۓ۔
نمبر 2- مسلمانوں کی علیحدہ نمائندگی برقرار رہے۔

مدن موہن مالویہ اور دوسرے احیاء پرست نے اس کی مخالفت کی کہ یہ ہندو مسلم اتحاد، ہندو مفاد کے خلاف ہے۔ یہ لیڈر یکم اگست 1920ء کی خلافت تحریک کے بھی خلاف تھے۔ مہاتما گاندھی نے پنجاب میں 1919ء میں جلیانہ والا باغ میں جنرل ڈائر کے قتل عام اور قاتل کو سزا نہ دینے کے خلاف اور خلافت تحریک کا ساتھ دیتے ہوئے عدم تشدد اور حکومت سے عدم تعاون کی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ عدم تعاون کی تحریک کے بھی بہت سے کانگریسی اور احیاء پرست خلاف تھے۔ اس کے باوجود بہت سے احیاء پرست نے 21-1920ء کی تحریک عدم تشدد اور عدم تعاون کا دیا۔1920ء کے دہے میں آریہ سماج کی مسلمانوں کو ہندو بنانے کی مہم نے زور پکڑا۔ اس کا شدھی ( پاک کرنا) رکھا گیا تھا۔ نشانہ ان مسلمانوں کو بنایا گیا تھا جسکی اسلامی تربیت بالکل نہیں ہوئی تھی اور جو متعدد ہندو رسوم پر عمل پیرا تھے۔ چنانچہ اس دورمیں مغربی اپر پردیش (یوپی) میں ملکان اور ہریانہ ( ضلع روہتک) میں مولا جاٹ کو ہندو بنانے کی رسوم کھلے عام انجام دی گئیں۔ جس نے ہندو مسلمانوں میں سخت کشیدگی پیدا کردی۔

عدم تعاون کی تحریک کی ناکامی کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے۔ بہت سے ہندوؤں کو خیال ہوا کہ ان کی کمزوریوں کا علاج یہ ہے کہ ان کے اندر ایک ہونے کا احساس مضبوط ہو اور اس کے ساتھ چھتری حصوصیات کو پروان چڑھانے پر زور دیا جاۓ۔ اگست 1921ء میں مالا بار (کیرا الہ) میں فسادات ہوئے۔ کسانوں نے حکومت اور زمینداروں کے خلاف بغاوت کردی۔ کسان موپلا مسلمانوں تھے اور زمیندار ہندو۔ زبردستی مذہب تبدیلی کے دو تین واقعات بھی ہوئے۔1921-23ء کے فسادات کے نتیجے میں ہندومہاسبھا جو کمزور تھی، دوبارہ زندہ ہونے لگی۔ اب تک اس کا کام گاۓ کی حفاظت دیونا گری رسم الخط میں ہندی کا استعمال، ذات پات میں اصلاحات تھیں۔ اگست 1923ء میں بنارس میں ہندو مہاسبھا کا قومی اجلاس ہندو لیڈروں نے بلایا۔ پنڈت مدن موہن مالویہ اسکے صدر تھے۔ موصوف نے کہا اگر ہندو اپنے کو مضبوط کرلیں اور مسلمانوں کے غنڈہ عناصر اس پر مطمئن ہو جائیں کہ وہ ہندوؤں کو آسانی سے نقصان نہیں پہنچا سکتے یا بے عزتی نہیں کرسکتے تو اتحاد مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے گا۔ انہوں نے اس موقع پر اونچی ذات والوں سے کہا کہ وہ نچلی ذاتوں کو صحیح ہندو کی حیثیت سے قبول کرلیں۔ ان کو سکول، کنویں اور مندروں سے الگ نہ کریں۔ انہوں نے ایسے لوگوں کو جو خوشی سے یا زبردستی مذہب تبدیل کر چکے تھے، واپس لانے کیلئے مہم چلانے کا بھی مشورہ دیا۔

ہندو مہاسبھا کے آٹھویں سیشن (1925) کی صدارتی تقریر میں لالہ جپت راۓ نے گاندھی جی کے عدم تشدد پر مبنی عدم تعاون کے نظریہ پر تنقید اس وجہ سے کی کہ یہ ہندو کے اتحاد کو کمزور کرے گا۔ ان حالات میں محسوس کیا گیا کہ ہندو مت خطرے میں ہے۔ ایسے ہی حالات میں آر ایس ایس{راشٹریہ سیوم سیوک سنکھ
کا قیام عمل میں آیا۔