آہ کراچی کے وہ شب و روز!
وہ بھی کیا دن تھے جب میں روشنیوں کے شہر کے ڈیڑھ کروڑ باسیوں میں سے ایک تھا۔ وہ موج مستی ،وہ شرارتیں، شب کی رعنائیاں ، دوستوں کی خوش گپیاں۔ باجوہ بلڈنگ، گلگت بلتستان کے مختلف گاؤں دیہاتوں سے بغرض تعلیم اُڑان بھر کر کراچی آنے والے طیور کا گھونسلا تھا۔ حیات مستعار کے آٹھ برس یہ شہر کھا گیا۔ امتداد زمانہ یادداشت اُڑا لے گیا، کئی چہرے، کئی نام قصہ پارینہ بن چکے۔ دماغ پہ چھائی دھند میں کہیں غائب ہوئے اور کئی آج بھی دل و دماغ کے پردے پر جلوہ کُناں ہیں۔ روزگار کے بکھیڑوں میں اُلجھے، اپنی اپنی دنیا میں گم، کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کی یادیں، جن کی باتیں آج بھی تروتازہ ہیں ، مدتوں بعد بھی زیارت نصیب نہیں ہوئی۔
اس شہر نے مجھے کیا دیا؟ بلکہ میں نے کیا لیا؟ یہ سوال بڑا تکلیف دہ ہے۔وہ بہت کچھ دیتا اگر میں لینا چاہتا۔ سڑکوں کی خاک چھانی، سنیما گھروں سے ناطہ جوڑ لیا اور کرکٹ سے لو لگایا۔ دو سال اچھی خاصی پڑھائی کی، جب گھر سے “دانہ پانی” کا سلسلہ منقطع ہوا، تو پیٹ پوجا کی خاطر سیکیورٹی کمپنیوں کا رُخ کر لیا۔ میں ایک کم سن “محافظ” بن گیا۔ پہلی بار یونیفارم پہنا کر مجھے ایک بنگلے لے جایا گیا۔ سیٹھ صاحب نے سر سے پاؤں تک میرا ایکسرے لیا اور سپروائزر کو مخاطب کرکے دہاڑا، ” یہ گارڈ ملا تمہیں؟ نہیں چاہیے مجھے، بچہ ہے یہ، دوسرا بندہ بھیجو”۔
لفظ “بچہ” گولی کی طرح دل میں پیوست ہو گیا۔ میں کچھ کہنے والا تھا کہ سپروائزر نے آنکھ ماری۔ معذرت کی اور مجھے لے کر چل دیا۔ پھاٹک پار کیا تو سپروائزر بولا، “جانتے ہو کیوں قبول نہیں کیا آپ کو؟ ”
“جانتا ہوں ” ، میں نے مختصر جواب دیا۔
دیکھا تھا، کیسے پھڑپھڑا رہی تھیں تتلیاں؟ ” سپروائزر نے پھر آنکھ ماری۔
میں جانتا تھا ، سیٹھ صاحب کو دختران جواں سال کی موجودگی میں کم سن نہیں، سن رسیدہ محافظ مطلوب تھا، سو مجھے رکھنے سے معذرت کر لی تھی۔ خیر چار سال مختلف کمپنیوں کی جانب سے مختلف جگہوں پر شبانہ ڈیوٹی نبھائی ۔ رت جگائی اب عادت بن گئی تھی۔ کراچی شہر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بھانت بھانت کے لوگوں سے آشنائی ہوئی۔ کچھ کو فرشتہ صفت اور بہت سوں کو شیطان صفت پایا۔ آج سوچتا ہوں تو وہ ایک ڈراؤنا خواب لگتا ہے۔ طویل داستان ہے، یہ موقع نہیں ۔ چار سال مٹرگشت اور آوارہ گردی میں گزر گئے، شب جاگتے اور دن سوتے نکل گئے۔ ہر سال امتحان آتا اور گزر جاتا، میں چار سال پیشتر جہاں تھا وہیں پڑا رہا۔ میرا تعلیمی سلسلہ وہیں کے وہیں رُکا رہا، گویا تھم سا گیا۔ جب شہر کراچی سے دل اُچاٹ ہوا تو گاؤں کا رُخ کر لیا، آٹھ سال بعد میرے ہاتھ میں ایف ایس سی کی “اپاہیج” سند تھی۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ آٹھ برسوں میں میں صرف دو قدم چل پایا تھا۔ (میٹرک تا انٹرمیڈیٹ)
اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ محکمہ تعلیم کے مہربان آغوش میں جگہ مل گئی اور میری اپاہج سند شرف قبولیت پا گئی۔ ایک مدت یہ سمجھنے میں گزر گئی کہ کیا میں واقعی “ماسٹرجی” کا اعزاز پا چکا ہوں؟ لوگ ماسٹر جی کہتے اور ادھر حیا کی سرخی میرے گالوں پر دوڑ جاتی۔رفتہ رفتہ مانوس ہوتا گیا۔ کھوٹا سکہ بھی کبھی کبھار چل جاتا ہے، الحمد للہ یہ “کھوٹا سکہ” بھی کسی نہ کسی طرح چل پڑا۔
میری واجبی سی تعلیم ہے۔ علامہ اقبال اوپن سے محض حصول سند کے لئے بی اے کر چکا ہوں ۔ احباب مجھے اعلی تعلیم یافتہ تصور کرتے ہیں تو ندامت محسوس کرتا ہوں ۔ میں اعلی تعلیم یافتہ بن سکتا تھا، اللہ پاک نے ذہانت، لیاقت اور قابلیت میں کسر نہیں چھوڑی تھی، میں نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ میں اس چیونٹی کی مانند ہوں جو عالم غیض و غضب میں اپنا ہی پچھواڑا کاٹ لیتی ہے۔ ایسے ہزاروں طلبہ ہیں جنہوں نے خود کمایا اور اعلی تعلیم پائی ۔ وہ آج اعلی عہدوں پر فائز بھی ہیں۔ گلگت بلتستان اور کوہستان کے سینکڑوں ہزاروں طالب علم اس وقت مختلف شہروں میں اپنی مدد آپ کے تحت زیر تعلیم ہیں۔ میں ان سے ملتمس ہوں، جو ملازمت آپ کر رہے ہیں، یہ آپ کے شاندار اور تابناک مستقبل کے لئے زینہ ہے۔ آپ کا حدف یہ جزوقتی ملازمت نہیں، کچھ اور ہے، جس کا آپ کو بہ خوبی علم ہے۔ یہ تو آپ کی شجاعت، جرات اور مردانگی ہے کہ آپ نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا ہے۔ دیکھو، وقت آپ کے ہاتھ میں ہے، دستیاب وقت سے جتنا اُٹھا سکتے ہو، فائدہ اُٹھالو۔ میری زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے، سبق اندوز ہو جا۔ اگر میرے ہاتھ میں اس وقت ماسٹر کی سند ہوتی تو آج “بابو” ہوتا۔۔۔۔۔لیکن کیا کیا جائے کہ حقیقی زندگی میں “اگرمگر” کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اگر مگر صرف کہنے کی باتیں ہیں، حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
کبھی کبھی کراچی بہت یاد آتا ہے۔ وہ ماہ و سال جو میں نے انسانوں کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں گزارے، زندگی کے یادگار لمحات انہیں میں پوشیدہ ہیں!