Skip to content
  • by

روح اداس ہے آج ہر انساں کی

روحیں اداس ہیں آج ہر انساں کی…..میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں بولے گئے ہرالفاظ نے مجھے متاثر کیا۔ ان الفاظ کو بولنے والا انسان جس نے سنیک ویڈیو بناتے ہوئے کہا”میں حیران ہوں کہ دنیا کے پردے پر ایک ایسی قوم بھی موجود ہے جسکا قومی ترانہ فارسی میں قومی زبان اردو ہے ، قانون انگریزی زبان میں مذہب اربی زبان میں ، ڈرامے ترقی کےفلمیں ہندوستانی ، خواہشات یورپیئن عادات جاہلانہ ، حرکات درندگانہ اور خواب مدینہ منورہ میں دفن ہونے کے”

جی ہاں بلکل کئی لوگوں کو یہ الفاظ ٖغیر اخلاقی لگیں گے اور کافی لوگ اسکو دیکھتے ہوئے مسکراہٹ کے ساتھ کہیں گے کہ اس بندے نے بلکل درست بات کہی ہے۔ پھر اسے آگے شیئر کرکے آپس میں گفتگو کا موضوع بناتے ہوئے کوئی سسٹم کو برا بھلا کہے گا تو کوئی حکومت کو اس طرح شکائتیں دہرا کہ پھر کسی نئی بات پہ یہ عمل دہرائیں گے ۔پاکستان عالم اسلام کے مرکز میں واقع ہے اور اسے عالم اسلام کا قلع کہا جاتا ہے۔ پاکستان کا شمار اسلامی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ پہلی اسلامی ایٹمی قوت بھی ہے ہمارے ملک نے دنیا کے مسلمانوں کے معاملات میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی ہے۔

یہ وہ معلومات ہے جو ہمیں پاکستان کے مطالعہ سے ملتی ہے۔ اور یہ وہ پاکستان ہے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا گیا ہے۔ جسے حاصل کرنے کا مقصد ہی مکمل طور پر اسلامی آزادی ہے۔ پاکستان اور یہاں کے مسلمانوں کیلئے اس مکمل آزادی کو حاصل کرنے والے قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلام اور پاکستان کے باہمی رشتے کی ان الفاظ میں وضاحت فرمائی:”وہ کونسا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدو واحد کی طرح ہیں؟ وہ کونسی چٹان ہے جس پر اس ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کونسا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر خدا تعالی کی کتاب قرآن مجید ہے۔”
یعنی مزہبی علماء کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماوں نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ اس ملک میں مکمل طور پر اسلامی طرز زندگی گزارنا محض کچھ لوگوں پر نہیں بلکہ مکمل مسلم قوم کا حق اور فرض ہے۔ تو میں پوچھتی ہوں کہ جب ہم سب ایک ہیں اور سب پر مقدس کتاب پر عمل کرنا فرض ہے تو رویئے ، سوچیں ، عادات اور ترجیحات میں اتنا فرق کیوں؟

آئے دن سوشل میڈیا پر مردوں کو عورتوں سے ، عورتوں کو مردوں سے، عوام کو حکومت سےاور غرباء کو مکمل سسٹم وغیرہ سےمسئلہ ہے۔ ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں کوئی غلط نہیں بس تنگ ہے انساں ہی انساں سے، کوئی غربت کی قربناک موت سے مر رہا ہے تو کسی کی شہنشاہی کی خواہشات ہی ختم نہں ہو رہیں، کوئی معصوم سارا دن مزدوری کی مجبوری میں مبتلا ہو کر علم کی محرومیت پہ تڑپتا ہے تو کوئی تعلیم کے شاندارموقع کے باوجود سوشل میڈیااکاونٹس پر دکھی شاعری کر کے جلتا ہے، کوئی ماں کا لال سرحدوں پر خود کو بھلا کر ہم وطنوں کی حفاظت میں مصروف ہے تو کسی کو اپنے ہی مسلم بھائیوں سے دشمنی اور نفرت سے فرصت نہیں،کوئی بیٹی علم حاصل کر کے اتنی کھلے دل و دماغ کی مالک ہوگئی ہے کہ حدوں کو پہچاننے سے قاصر ہے تو کسی باحیا بیٹی کا ان باعلم بہنوں کی وجہ سے حق تلف کیا جا رہا ہے۔ ہاں مانا کہ ہر انسان زندگی کے دائرے میں اسطرح قید ہے کہ مجبوری بھی اسکا مقدر ہے مگر سرعام لاعلمی بھی زوال کیلئے کوئی کم وجہ نہیں۔

میرے یہ لکھے گئے چند الفاظ کئی لوگوں کو غیر اخلاقی معلوم ہونگے مگر میں کہتی ہوں کہ ہر الفاظ بلکل سچ ہے۔ جس طرح گاڑی پہ سوار انسان کو ہرگز پتہ نہیں چل سکتا کہ اسکی گاڑی کے ٹائر کے نیچے کتنی چیونٹیاں کچلی گئی یا نہیں، اسی طرح انسان آج کے جدید دور میں بھی دوسرے انسان سے اتنا غافل ہے کہ احساس تک ہی نہیں ہالانکہ ایک انسان کے حدود پار کرنے یا خواہشات کی تکمیل سے کئی لوگوں کی زندگیاں مشکلات سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ اور یہ تصدیق شدہ سچ ہے۔
آج کے دور میں ڈرامہ اور فلم انڈسٹری وغیرہ بہت اہم خیال کئے جاتے ہیں۔ مسئلہ فلموں اور ڈراموں کے بنانے کا نہیں سوال صرف اتنا ہے کہ آج جو کہانیان اور ان میں کردار کے ساتھ اکثر حلیہ پیش کیا جا رہا ہے کیا وہ واقعی اسلام کے لحاظ سے ٹھیک ہے؟فیشن آخر کیوں کیا جاتا ہے خوبصورتی اور کشش کیلئے ہی ناں؟ تو اگر خوبصورتی اور اٹرکشش پھٹی جینزاور جسمانی نمائش سے ہوتی توحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم با پردہ شخصیت دنیا کے حسین ترین اور پرکشش انسان کیسے۔۔۔۔۔۔ اور اگر کسی مسلمان کے دل میں اس بات کا یقیں نہیں تو کیا مطلب اس کے ایمان کا؟کیا اصل مسلمان آزاد خیال نہیں؟کیا مسلمان دور حاضر میں اپنے وجود کا ثبوت دیتے ہوئے اپنا جدید پرکشش فیشن اختیار نہیں کرسکتا؟

یہ وہ وقت ہے جب فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کیلئے صرف میسج کرنا نہیں بلکہ ہم پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔ اور سب سے پہلے جہاد نفس جوقریباً آج کے ہر مسلمان مردوعورت پر فرض ہوچکا ہے۔یہاں پہ آخرت کی بات تو ہوئی ہی نہیں موضوع صرف دنیاوی ہے۔ظاہر ہے دنیا میں اس قوم کا جدت اختیار کرنا اور ترقی کرنا لازم ہے تو نئے دور کو اپناتے ہوئے فیشن کو فحاشی اور آزاد خیالی کو وجہِ زوال بنانا تو ہم مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا۔دورحاضر میں ہمیں جس اخلاقی اور ذہنی للکار کا سامنا ہے وہ دنیا کو اپناتے ہوئے دنیا کے شر سے بچے رہنا ہے ہمیں ترقی کی راہ پر چلتے ہوئے سب مسلمانوں کو یکجا ہو کر بڑھنا ہے وگرنہ موجودہ حالات میں یہ بات تو طے ہے کہ ہماری حالتِ اضطراب ہمیں مسلسل زوال کی طرف لے جا رہی ہے۔

پھر ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں نہیں سنی جا رہیں جسطرح مسلمان قوم کافروں کے دکھاوے اور بہکاوے میں الجھی ہے اسے تو صاف ملاوٹ کا نام دوں گی میں۔ ملاوٹ ہے ہمارے اعمالوں میں، ہمارے خیالوں میں۔ ایماں کا تو پتا نہیں مگر ملاوٹ ہے ہماری شخصیت میں۔ مسلمان خود ایک قیمتی اور واحد برینڈ ہے جو موجودہ دور کی الجھنوں میں ملاوٹ کا شکار نظر آرہا ہے۔اپنی اس بات کا اختتام میں ایک قرآنی آیت سے کروں گی جس کا ترجمہ میں نے کچھ اسطرح پڑھا ہے:
اور ہرگز تم سے یہود اور نصاری راضی نہ ہونگے جب تک تم ان کے دین کی پیروی نا کرو تم فرما دو اللہ ہی کی ہدایت ہے اور اگر تو ان کی خواہشوں کا پیرو ہوا بعد اس کے کہ تجھے علم آچکا تو اللہ سے تیرا کوئی بچانے والا نہ ہوگا اور نہ مدد گار۔سورۃ البقرہ۔ آیت نمبر120

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *