اسوشل میڈیا سے مراد وہ ایپلیکیشنز اور ویب سائٹس ہیں جو لوگوں کو باوقت مواد شئیر کرنے کیلئے ڈیزائن کی گئی ہیں۔ ابلاغ کا یہ آلہ کمپیوٹر سے شروع ہوا، اور اب لوگ باآسانی اسمارٹ فون ایپس کے ذریعے سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی ایک ہی وقت میں پوری دنیا سے جڑے رہنے کیلئے ہم سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔باوقت ویڈیوز، تصاویر،آراء اور واقعات کو دنیا تک پہنچانے اور کاروبار اور طرزِ زندگی ک طریقوں کو بدل دیا ہے۔ یہاں اصل بات سوشل میڈیا کو سمجھنے کی بنیادی بات ہے جس سے ہم سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھاتےہوئےاپنے کاروبار کو فروغ دے سکتے ہیں۔ کوئی بھی شخص سوشل میڈیا کیلئے سائن اپ کر کے اسے استعمال میں لا سکتا ہے مگر اسکا درست استعمال تب ہوگا جب وقت ضیاع کرنے والے مواد کو چننے کی بجائے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے اسکا انتخاب کیا جائے۔ شروعات میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ مکمل طور پر وقت کا ضیاع ہے خاص طور پر نوجوان نسل کیلئے جسے روزگار اور مستقبل بنانا ہوتا ہےمگر وہ نوجوان نسل اپنا زیادہ تر وقت مختلف گیمز،ویڈیوز، اور فیس بک جیسے کاموں میں صرف کر دیتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں نالج کا اضافہ ہوا پتا چلا کہ سوشل میڈیا کو کمائی کا بہترین ذریعہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ نتیجتاَ آج کی نوجوان نسل میں یہ شعور پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اپنے کمپیوٹر کے علم کو استعمال کرتے ہوئے بہتر روزگار بنا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے کئی مختلف طریقوں سے کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ آن لائن سروے، آن لائن مارکیٹنگ، اپنی ویب سائٹ بنانا، ای بک لکھ کر پبلش کرنا، ایفیلیٹ مارکیٹنگ، اپنی تعلیم اور ہنر کو استعمال کر کے آنل لائن لوگوں تک رسائی، تصاویری ہنر کو بیچنا، فری لانسگ، اپنی کہانیاں اور ویڈیوز بیچنا، یوٹیوب پر ویڈیوز بنا کر کمائی کرنا، ڈاٹا انٹری، ورچوئل اسسٹنٹ، لینگویج ٹرانسلیٹر، ویب ڈیزائننگ، بلاگنگ اور کنٹینٹ رائٹنگ وغیرہ۔ اب صحافت کے دائرے کار میں بھی داخل ہونا نہایت آسان ہوگیا ہے کوئی بھی کمپیوٹر یا اسمارٹ فون سے ایک شخص خود رپورٹر، ڈسٹری بیوٹر، ڈیزائنر، ایڈیٹر ، پبلشریا براڈ کاسٹر اور پروڈیوسر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کسی بھی وقت کہیں بھی کوئی بھی مواد تحریر،تصویر، آوازاور ویڈیو کی صورت میں بلاگ، ٹویٹ، یوٹیوب یا فیس بک پوسٹ کر سکتا ہے۔ زندگی میں سامنے آنے والی ہر چیز یا ہر ذرائع کے دو پہلو ضرور ہوتے ہیں جس میں ایک مثبت اور دوسرا منفی ہے۔ جس طرح سوشل میڈیا اس دور کی بہترین کارکردگی کا حصہ ہے اسی طرح اس کے بھی منفی پہلو ضرور ہیں۔ہم جس دور میں زندگی جی رہے ہیں اس دور میں فیس بک ،واٹس ایپ، ٹویٹر، انسٹاگرام کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ آج کا انسان اپنا زیادہ وقت انہی میں گزار رہا ہے جسکی وجہ سے کئی مثبت اور منفی نتائج سامنے آرہے ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھانے والوں پر بات کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ جس شخص کو اپنی سوچ اور نظرئے سے فائدہ لینے کی ضرورت ہے تو اس کیلئے سوشل میڈیا اچھے میدان کی حیثیت رکھتا ہے۔پہلے زمین پر قبضہ کر کے وہاں حکومت کرنا سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی تھی مگر اس دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے انسانوں کے دماغ پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کسی بھی قوم کے نوجوانوں کا قیمتی وقت غیر ضروری کاموں میں ضائع کروا کر اس قوم کو ترقی سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ اور اب یہی کام حقیقت میں چل رہا ہے۔ برِصغیر پر انگریز حکومت کرنے آئے مگر جاتے جاتے کئی ایسی غیر اسلامی عادات چھوڑ گئے کہ جنکا اثر آج بھی قوم پر دکھائی دیتا ہے بلکہ اب تو نہاہت بے شرمی اور غیر اخلاقیت سوشل میڈیا پر گردش کرتی دکھائی دیتی ہےکہ اگر پاکستان میں دیکھا جائے تو اندازَ پچاسی پرسنٹ لوگ غیر اخلاقیت کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے پندرہ پرسنٹ وہ لوگ جو سامنے آکر غیر اخلاقیت پھیلاتے ہیں اور باقی ستر پرسنٹ لوگ ان پندرہ پرسنٹ لوگوں کا تعاقب کرتے نظر آتے ہیں جو کہ مختلف سوشل میڈیا اکاونٹس کے ذریعے پھیل رہے ہیں۔ اور باقی پندرہ پرسنٹ وہ لوگ ہیں جو کامیابی اور ترقی کیلئے آج بھی کوشاں ہیں۔ بہر حال دورِ حاضر میں نوجوانوں کو بے روزگاری کے غم میں ڈوبنے کی بجائے موجودہ ذرائع پر غور کرتے ہوئےمحنت کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ٹھیک نظریے سے دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کامیابی کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔ اگر کسی ملک کے نوجوان سوشل میڈیا کو غلط رہنمائی کی بجائے بہتری کیلئے استعمال کریں تو کامیابی پوری قوم کا مقدر بن سکتی ہے۔
روحیں اداس ہیں آج ہر انساں کی…..میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں بولے گئے ہرالفاظ نے مجھے متاثر کیا۔ ان الفاظ کو بولنے والا انسان جس نے سنیک ویڈیو بناتے ہوئے کہا”میں حیران ہوں کہ دنیا کے پردے پر ایک ایسی قوم بھی موجود ہے جسکا قومی ترانہ فارسی میں قومی زبان اردو ہے ، قانون انگریزی زبان میں مذہب اربی زبان میں ، ڈرامے ترقی کےفلمیں ہندوستانی ، خواہشات یورپیئن عادات جاہلانہ ، حرکات درندگانہ اور خواب مدینہ منورہ میں دفن ہونے کے” جی ہاں بلکل کئی لوگوں کو یہ الفاظ ٖغیر اخلاقی لگیں گے اور کافی لوگ اسکو دیکھتے ہوئے مسکراہٹ کے ساتھ کہیں گے کہ اس بندے نے بلکل درست بات کہی ہے۔ پھر اسے آگے شیئر کرکے آپس میں گفتگو کا موضوع بناتے ہوئے کوئی سسٹم کو برا بھلا کہے گا تو کوئی حکومت کو اس طرح شکائتیں دہرا کہ پھر کسی نئی بات پہ یہ عمل دہرائیں گے ۔پاکستان عالم اسلام کے مرکز میں واقع ہے اور اسے عالم اسلام کا قلع کہا جاتا ہے۔ پاکستان کا شمار اسلامی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ پہلی اسلامی ایٹمی قوت بھی ہے ہمارے ملک نے دنیا کے مسلمانوں کے معاملات میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی ہے۔ یہ وہ معلومات ہے جو ہمیں پاکستان کے مطالعہ سے ملتی ہے۔ اور یہ وہ پاکستان ہے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا گیا ہے۔ جسے حاصل کرنے کا مقصد ہی مکمل طور پر اسلامی آزادی ہے۔ پاکستان اور یہاں کے مسلمانوں کیلئے اس مکمل آزادی کو حاصل کرنے والے قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلام اور پاکستان کے باہمی رشتے کی ان الفاظ میں وضاحت فرمائی:”وہ کونسا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدو واحد کی طرح ہیں؟ وہ کونسی چٹان ہے جس پر اس ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کونسا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر خدا تعالی کی کتاب قرآن مجید ہے۔” یعنی مزہبی علماء کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماوں نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ اس ملک میں مکمل طور پر اسلامی طرز زندگی گزارنا محض کچھ لوگوں پر نہیں بلکہ مکمل مسلم قوم کا حق اور فرض ہے۔ تو میں پوچھتی ہوں کہ جب ہم سب ایک ہیں اور سب پر مقدس کتاب پر عمل کرنا فرض ہے تو رویئے ، سوچیں ، عادات اور ترجیحات میں اتنا فرق کیوں؟ آئے دن سوشل میڈیا پر مردوں کو عورتوں سے ، عورتوں کو مردوں سے، عوام کو حکومت سےاور غرباء کو مکمل سسٹم وغیرہ سےمسئلہ ہے۔ ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں کوئی غلط نہیں بس تنگ ہے انساں ہی انساں سے، کوئی غربت کی قربناک موت سے مر رہا ہے تو کسی کی شہنشاہی کی خواہشات ہی ختم نہں ہو رہیں، کوئی معصوم سارا دن مزدوری کی مجبوری میں مبتلا ہو کر علم کی محرومیت پہ تڑپتا ہے تو کوئی تعلیم کے شاندارموقع کے باوجود سوشل میڈیااکاونٹس پر دکھی شاعری کر کے جلتا ہے، کوئی ماں کا لال سرحدوں پر خود کو بھلا کر ہم وطنوں کی حفاظت میں مصروف ہے تو کسی کو اپنے ہی مسلم بھائیوں سے دشمنی اور نفرت سے فرصت نہیں،کوئی بیٹی علم حاصل کر کے اتنی کھلے دل و دماغ کی مالک ہوگئی ہے کہ حدوں کو پہچاننے سے قاصر ہے تو کسی باحیا بیٹی کا ان باعلم بہنوں کی وجہ سے حق تلف کیا جا رہا ہے۔ ہاں مانا کہ ہر انسان زندگی کے دائرے میں اسطرح قید ہے کہ مجبوری بھی اسکا مقدر ہے مگر سرعام لاعلمی بھی زوال کیلئے کوئی کم وجہ نہیں۔ میرے یہ لکھے گئے چند الفاظ کئی لوگوں کو غیر اخلاقی معلوم ہونگے مگر میں کہتی ہوں کہ ہر الفاظ بلکل سچ ہے۔ جس طرح گاڑی پہ سوار انسان کو ہرگز پتہ نہیں چل سکتا کہ اسکی گاڑی کے ٹائر کے نیچے کتنی چیونٹیاں کچلی گئی یا نہیں، اسی طرح انسان آج کے جدید دور میں بھی دوسرے انسان سے اتنا غافل ہے کہ احساس تک ہی نہیں ہالانکہ ایک انسان کے حدود پار کرنے یا خواہشات کی تکمیل سے کئی لوگوں کی زندگیاں مشکلات سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ اور یہ تصدیق شدہ سچ ہے۔ آج کے دور میں ڈرامہ اور فلم انڈسٹری وغیرہ بہت اہم خیال کئے جاتے ہیں۔ مسئلہ فلموں اور ڈراموں کے بنانے کا نہیں سوال صرف اتنا ہے کہ آج جو کہانیان اور ان میں کردار کے ساتھ اکثر حلیہ پیش کیا جا رہا ہے کیا وہ واقعی اسلام کے لحاظ سے ٹھیک ہے؟فیشن آخر کیوں کیا جاتا ہے خوبصورتی اور کشش کیلئے ہی ناں؟ تو اگر خوبصورتی اور اٹرکشش پھٹی جینزاور جسمانی نمائش سے ہوتی توحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم با پردہ شخصیت دنیا کے حسین ترین اور پرکشش انسان کیسے۔۔۔۔۔۔ اور اگر کسی مسلمان کے دل میں اس بات کا یقیں نہیں تو کیا مطلب اس کے ایمان کا؟کیا اصل مسلمان آزاد خیال نہیں؟کیا مسلمان دور حاضر میں اپنے وجود کا ثبوت دیتے ہوئے اپنا جدید پرکشش فیشن اختیار نہیں کرسکتا؟ یہ وہ وقت ہے جب فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کیلئے صرف میسج کرنا نہیں بلکہ ہم پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔ اور سب سے پہلے جہاد نفس جوقریباً آج کے ہر مسلمان مردوعورت پر فرض ہوچکا ہے۔یہاں پہ آخرت کی بات تو ہوئی ہی نہیں موضوع صرف دنیاوی ہے۔ظاہر ہے دنیا میں اس قوم کا جدت اختیار کرنا اور ترقی کرنا لازم ہے تو نئے دور کو اپناتے ہوئے فیشن کو فحاشی اور آزاد خیالی کو وجہِ زوال بنانا تو ہم مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا۔دورحاضر میں ہمیں جس اخلاقی اور ذہنی للکار کا سامنا ہے وہ دنیا کو اپناتے ہوئے دنیا کے شر سے بچے رہنا ہے ہمیں ترقی کی راہ پر چلتے ہوئے سب مسلمانوں کو یکجا ہو کر بڑھنا ہے وگرنہ موجودہ حالات میں یہ بات تو طے ہے کہ ہماری حالتِ اضطراب ہمیں مسلسل زوال کی طرف لے جا رہی ہے۔ پھر ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں نہیں سنی جا رہیں جسطرح مسلمان قوم کافروں کے دکھاوے اور بہکاوے میں الجھی ہے اسے تو صاف ملاوٹ کا نام دوں گی میں۔