Skip to content

آج وہی میری خواہش سے بھی مکر گیا

بلا آخر تیرا سہرا بھی دل سے اتر گیا
ایک دور تھا بس جو آیا اور گزر گیا
وہ میرے سامنے کھڑا تھا لب خاموش تھے میرے
درد تھا کہ بس سارا آنکھوں سے بہ گیا
ساری کائنات میں ایک وہ ہی اپنا تھا کیا
وہ گیا تو لگا جیسے مسافر قافلے سے بچھڑ گیا
جسے خود سے بڑھ کر میری تمنا نہ تھی کبھی
آج وہی میری خواہش سے بھی مکر گیا
زمین پہ ہوتا ہے تو ڈھونڈ ہی لیتے اس کو
تو ستارہ تھا آسمان کا خدا جانے کدھر گیاہ
پہلے پہل تو یوں لگا کمبخت ٹۂر ہی جائے گا
پر درد جدائی میں یہ دل تو اور بھی سنور گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *