بلا آخر تیرا سہرا بھی دل سے اتر گیا
ایک دور تھا بس جو آیا اور گزر گیا
وہ میرے سامنے کھڑا تھا لب خاموش تھے میرے
درد تھا کہ بس سارا آنکھوں سے بہ گیا
ساری کائنات میں ایک وہ ہی اپنا تھا کیا
وہ گیا تو لگا جیسے مسافر قافلے سے بچھڑ گیا
جسے خود سے بڑھ کر میری تمنا نہ تھی کبھی
آج وہی میری خواہش سے بھی مکر گیا
زمین پہ ہوتا ہے تو ڈھونڈ ہی لیتے اس کو
تو ستارہ تھا آسمان کا خدا جانے کدھر گیاہ
پہلے پہل تو یوں لگا کمبخت ٹۂر ہی جائے گا
پر درد جدائی میں یہ دل تو اور بھی سنور گیا