سجدہ تلاوت
اس سجدے منفرد کو کہتے ہیں،جو نیت کرکے دو تکبیروں ( یعنی سجدہ میں جانے اوت اٹھنے کی تکبیروں) کے درمیان میں کیا جاتا ہے۔
“هِيَ سَجْدَةُ مُفْرَدةُمَنْوِيَّةُ مَخْفُوْفَةٌ بَيْنَ تَكْبيْرَتَيْنَ”(مرقاة المفاتيح: 2/809)
ترجمہ:”ايک واحد سجدہ ہے جسے ہم دو تکبیروں کے مابین ادا کرتے ہیں”
تلاوت کرنے والے اور سننے والے دونوں پر سجدہ واجب ہوجاتا ہے.ان سب کو “سجود التلاوہ” بھی کہا جاتا ہے۔اس کے وجوب میں اختلاف ہے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک واجب ہے اور امام مالکی,شافعی اور امام احمد کے نزدیک سنت ہے۔
سجدہ تلاوت کا حکم
قرآن کریم میں چودہ آیات ایسی ہیں جن کی تلاوت کرنےیا کسی کسی سے سننے کے بعد واجب الاداء ہو جاتا ہے۔اسے سجدہ تلاوت کہتے ہیں۔حدیث مبارکہ ميں آیا ہے کہ:”كَانَ النَّبِّی ﷺ يَقْرَأُ الُّسُوْرةَ الَّتِیْ فِيْهَاالسَّجْدَةُ،فَيَسْجُدُ وَنَسْجدُ،حَتَّی مَا يَجِدُ أحَدُنَا مَكَااً لِمَوْضِعِ جَبْهَتِهٌ”(بخاری:باب السجود القرآن:1029-مسلم:باب المساجد:575)
ترجمہ:”حضور نبی كريمﷺ جب سجده والی سورت تلاوت فرماتے تو سجده كرتے حتی كے ہم میں سے بعض کو اپنی پیشانی رکھنے کے لیے بھی جگہ نہیں ملتی تھی۔”
سجدہ تلاوت کی شرائط
سجدہ تلاوت کی صحیح ہونے کی سب وہی شرطیں ہیں جو نماز کے صحیح ہونے کی ہیں.یعنی طہارت(باوضو)، ستر كی پرده پوشی، نیت اور اس میں استقبالِ قبلہ تحریمہ اس میں شرط نہیں۔اس کی نیت میں آیت کی تعین شرط نہیں ہے کہ یہ سجدہ فلاں فلاں نیت کے سببب سے ہے۔اوراگر نماز میں آیت سجدہ پڑھی جائے اور فوراً سجدہ کیا جائے تو نیت بھی شرط نہیں۔
سجدہ تلاوت کا طریقہ
جب سجدہ تلاوت کرنے لگے تو سجدہ تلاوت کی نیت دل میں کر لے یا زبان سے کہہ لینا بھی بہتر ہے۔
نیت:”نَوَیْتُ أَنْ أَسْجُدَ لِلّٰهِ تَعَالٰی عَنْ تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ”
ترجمہ:”الله تعالی كے واسطے سجده تلاوت كرتا ہوں”
کھڑا ہو کر ہاتھ اٹھائے بغیر “اللّٰه اَکْبَر ” کہتا ہوا سجدہ میں چلا جائے۔ اور کم از کم تین مرتبہ “سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلٰی” کہے پھر “اللّٰهُ اَكْبَر” کہتا ہوا سجدے سے سر اٹھائے اور کھڑا ہوجائے۔سجده تلاوت میں تشہد پڑھنا اور سلام پھیرنے کی ضرورت نہیں۔اگر نماز میں آیت تلاوت کے بعد فی الفور سجدہ تلاوت ہے تو نیت ضروری نہیں۔
سجدہ تلاوت کی دعا
سجده تلاوت میں سجدہ کی تسبیح کم از کم تین مرتبہ پڑھ لینا کافی ہے۔سجدہ تلاوت میں پڑھنے کی ایک دعا مذکور ہے۔حدیث میں ہے کہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:رسول کریم ﷺ تہجد کی نماز پڑھتے ہوئے قرآن کے سجدوں میں یہ کلمات پڑھتے،
“سَجَدَ وَجْهِیَ لَلَّذِیْ خَلَقَهُ وشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ فَتَبَارَكَ اللّٰه أَحْسَنُ الخَالِقِیْن”
(حاکم:ترمذی:474/2-احمد:30/6-الزیادة:ذهبی:220/1)
ترجمہ:”میرے چہرے نے سجدہ کیا اس ذات کے لیے جس نے اس کو پیدا کیا اور اس کے کان اور آنکھیں بنائیں۔پس اللہ بہترین خالق ہے۔”
سجدہ سہو
سہو کے معنی بھول جانے کے ہیں ۔بھول کر کبھی کبھی نمازمیں کمی یا زیادتی ہوجاتی ہے ۔اس کو دور کرنے کے لیے نماز کے آخر ی قاعدے میں دو سجدے کیے جاتے ہیں۔سجدہ سہو ایسے دو سجدوں کو کہتے ہیں جنہیں ایک نمازی بھول چوک کی وجہ سے اپنی نماز میں پیدا ہونے والے خلل کو پورا کرنے (نقص کی تلافی )کے لیے کرتا ہے ۔سجدہ سہو کی تین وجوہات ہیں،جو کہ درج ذیل ہیں:
1-نماز میں زیادتی۔
2-کمی (کوئی نقص ہونا)۔
3-شک کا ہونا۔
سجدہ سہو کے احکام
اگر نمازی اپنی نماز میں جان بوجھ کر قیام یا قعدہ یا رکوع یا سجدہ کا اضافہ کردے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔اور اگر بھول کر ان میں سے کسی میں اضافہ ہوجائے اور اس سے فارغ ہونے سے پہلے یاد آجائے تو اس صورت میں سجدہ سہو واجب ہوگا۔٭ -ایک شخص نے ظہر کی چار کے بجائے پانچ فرض پڑھ لئے اور اس پانچویں رکعت کے متعلق تشہد میں بیٹھنے سے پہلے یاد نہیں آیا،وہ تشہد مکمل کرکے سلام پھیر د ے اور پھر سجدۂ سہو کرے اور سلام پھیر دے اور اگرسلام پھیرنے کے بعد ا سےپانچویں رکعت کے بارے میں یاد آیا ہے تو وہ سجدۂ سھو کرکے سلام پھیر دے اور اگر پانچویں رکعت کے دوران اسے یاد آگیا کہ وہ ایک رکعت زائد پڑھ رہا ہے تو فورا بیٹھ جائے تشہد پڑھے اورسلام پھیر دے پھر سجدۂ سہوکرے اور سلام پھیر دے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے
“ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی الظھر خمسا فقیل لہ ازید فی الصلاۃ؟فقال :وماذاک ؟ قا لوا صلیت خمسا فسجد سجدتین بعد ما سلّم،وفی روایۃ : فثنی رجلیہ واستقبل القبلۃ فسجد سجدتین ثم سلم “(رواہ الجماعۃ)
“بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےظہر کی پانچ رکعتیں پڑھ لیں آپ سےکہا گیا کہ کیا نماز میں اضافہ کر دیاگیا ہے؟ آپ نے فرمایا کون سا اضافہ ؟ صحابہ نےعرض کی آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں،تو آپ نے سلام کے بعد دو سجدے کئے،اور ایک روایت کے الفاظ یُوں ہیں کہ پس آپ نے پانوں موڑے ،قبلہ رو ہوئے دو سجدے کئے اور سلام پھیرا-“(بخاری-مسلم- ابوداؤد- ترمذی- نسائی-ابن ماجہ)
٭ -نماز پُوری ہونے سے پہلے سلام پھیرنا نماز میں زیادتی شمار ہوگی۔اسے زیادتی کہنے کیوجہ یہ ہے کہ اس نے نماز میں ایک سلام کا اضافہ کردیا ہے ۔سو اگر نمازی نے اپنی نماز پُوری ہونے سےپہلے جان بوجھ کر سلام پھیرا تو اسکی نماز باطل ہوجائے گی۔اگر بھول کر ایسا کیا گیا اورکافی دیر بعد اسے یاد آیا تونئے سرے سے نماز لوٹائے گا،اور اگر تھوڑی دیر بعد یعنی چند منٹ بعد یاد آگیا تو وہ اپنی نماز پوری کرے ۔جورہ گئ تھی،اور سلام پھیرے پھر سجدۂ سہو کے دو سجدے کرے اور سلام پھیر دے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے
“ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلّی بہم الظہر او العصر فسلم من رکعتین فخرج الناس من ابواب المسجد یقولون أقصرت الصلاۃ؟ وقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم إلی خشبۃ فی المسجد فا تکأ علیہا کأنہ غضبان فقام رجل فقال؟ یارسول اللہ:أنسیت أم قصرت الصلاۃ ؟فقا ل النبی صلی اللہ علیہ وسلم :لم أنس ولم تقصر،فقال الرجل:بلی قد نسیت،فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم للصحابۃ أحق ما یقول؟قالوا نعم،فتقدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصلی ما بقی من صلاتہ ثم سجد سجدتین ثم سلم”(متفق علیہ)”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہریا عصر کی نماز پڑھائی اور دورکعتوں پر سلام پھیردیا پھر لوگ مسجد کے دروازوں سے یہ کہتے ہوئے نکل رہےتھے کیا نماز میں کمی ہوگئ ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے ،جیسے غصّے میں ہوں ایک شخص نےآگے بڑھ کر دریافت کیا اے اللہ کے رسول آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کردی گئ ہے؟ آپ نے فرمایا؛نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم کی گئی ہے ،اس نے عرض کی یقینا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کردی گئی ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا جو کچھ یہ کہ رہا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟ انھوں نے کہا ؛جی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور جو رکعتیں رہ گئی تھیں وہ پڑھائیں پھر سلام پھیرا پھر دو سجدے کئے اور دوبارہ سلام پھیرا۔(بخاری ومسلم)
٭- جب نمازی نماز کا کوئی رکن چھوڑدے،تو اگر وہ تکبیر تحریمہ ہو تو اسکی نماز نہیں ہوتی خواہ اس نے جان بوجھ کر چھوڑا ہو یا بھول کر، کیونکہ اس صورت میں اسکی نماز شروع ہی نہیں ہوئی،اور اگر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی اور رکن اس نے جان بوجھ کر چھوڑدیا تو اسکی نماز باطل ہوگئی،اور اگر بھول کر رہ گیا اور دوسری رکعت میں اس رکن تک پہنچ گیا تھا اور اس سے اگلی رکعت اس کے قائم مقام ہوگی،اوراگر دوسری رکعت میں اس مقام تک نہیں پہنچا جس میں وہ رکن تھا ،تو اس پر واجب ہے کہ واپس لوٹ کر چھوڑا ہوا رکن اور جو اس کے بعد ہے اُسے بالترتیب ادا کرے اور دونوں حالتوں میں سلام پھیرنے کے بعد اس پر سجدہ سہو واجب ہے۔
ایک شخص پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ بھول گیا،اور دوسری رکعت میں دو سجدوں کے درمیان بیٹھے ہوئے اسے یاد آیا تو اس صورت میں اسکی پہلی رکعت نہیں ہوگی،اور اس کے بجائے پہلی رکعت دوسری رکعت کی قائم مقام ہوگی،وہ اسے پہلی رکعت شمار کرے اور اپنی نماز مکمل کرکے سلام پھیرے پھر سہو کے دو سجدے کرکے سلام پھیرے۔٭- جب کوئی نمازی واجبات نماز میں سےجان بوجھ کر کوئی واجب چھوڑدے،تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے،اور اگربھول کر کوئی واجب رہ جائے تو اگراسی مقام پر اسےیاد آجائے تو اسے اداکرلے ۔اس صورت میں اس پرسجد سہو نہیں ہے اور اگر اس واجب کے مقام سےآگے گزرکرلیکن اسکے بعد والے رکن سے پہلے یاد آجائے تو واپس ہو کر ادا کرے،پھر اپنی باقی نماز کو پوری کرے اور سلام پھیردے،پھر سجدہ سہو کرے اور دوبارہ سلام پھیرے۔اور اگر اس سے اگلے رکن تک پہنچنے کے بعد یاد آئے تو وہ واجب ساقط ہو جائےگا،نمازی اس کی طرف نہ لوٹے ،بلکہ اپنی نماز جاری رکہے اور آخر میں سلام سے پہلے سجدہ سہو کرلے۔
ایک شخص دوسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد درمیانی تشہّد بھو ل کر تیسری رکعت کیلئے اٹھنے لگا، پھر اٹھنے سے پہلے ہی اسے یاد آگیا تو وہ بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے پھر اپنی نماز مکمل کرے اس پر سجدہ سہو نہیں ہے۔اور اگر اٹھنے کے بعد اور پوری طرح کھڑے ہونے سے پہلے یاد آیا تو لوٹ کر بیٹہھ جائے اورتشہد پڑھے،پھرنماز پوری کرکے سلام پھیرے،پھر سجدہ سہو کرے اور سلام پھیرے اور اگر پوری طرح کھڑے ہونے کے بعد یاد آیا۔تو اس سے تشھد ساقط ہوجائے گی تشہد کی طرف نہ لوٹے (اس کے بغیر ہی) اپنی نماز مکمل کرکے سلام پھیرنے سے پہلے سجدۂ سہو کرلے۔٭- شک کہتے ہیں اس بات میں تردّ د کو کہ د و میں سے کون سا کام ہوا ہے؟ عبادت میں درج ذیل تین حالتوں میں شک نظر انداز کر دی جا تی ہے۔
1-جب صر ف وہم ہو اسکی کوئی حقیقت نہ ہو ،مثلا :وسوسہ وغیرہ۔
2-عبادت سے فارغ ہونے کے بعد شک ہو اور جب تک یقین نہ ہواسے بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے , اگریقین ہو جائے تو اس کے مطابق عمل کیا جائے۔
ایک شخص نے ظہر کی نماز ادا کی،نماز سے فارغ ہونے کے بعد اسے شک ہوا کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار ،اس شک کو نظر انداز کردیا جائے گا ،ہاں اگراسے یقین ہو جائے کہ صرف تین رکعتیں ہی پڑھی ہیں اور نماز کو ابھی تھوڑا وقت گزرا ہو تو وہ اپنی نماز پوری کرے ۔پھرسلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کرکے دوبارہ سلام پھیرے،اور اگر کافی وقت بعد اسے یاد آئے تو نئے سرے سےنمازدہرائے۔
سجدہ سہو کا طریقہ
سجدہ سہو اگر سلام سے پہلے ہو تو آخری رکعت میں تشہد ،درود اور دعا کے بعددو سجدے کرنے چاہئیں۔اس طرح سجدے میں اٹھتے جاتے وقت “اللہ اکبر ” کہے ۔اور پھر دونوں طرف سلام پھیر لینا چاہیے۔اور اگر سجدہ سہو سلام کے بعد ہو تو آخری رکعت کے بعد تشہداور درود کے بعد سلام پھیر لینا چاہیے۔پھر دو سجدے کرے اس طرح کے سجدے میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت” اللہ اکبر “کہے۔