بسم الله الرحمٰن الرحیم
اسلام علیکم !
ہمیشہ قصور تربیت کا نہیں ہوتا
کچه رنگ صحبتوں کے بهی چڑهتے هیں ..
شاہمیر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تها اس کے والدین نے اس کی تربیت بہترین انداز میں کی تهی مگر اسے بری صحبت سے نہ بچا سکے اوراس نے اپنے دوست کی باتوں میں آکر سودی بینک میں اپنا اکاونٹ کھلوایا لیا۔ باپ کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ نہ مانا ۔ اس کی آنکھوں پر لالچ کی پٹی بندھی تھی ۔ اس نے اپنے پاس موجود سارے پیسے بینک میں رکھوا دیے ہر ماہ جب اسے بینک کے میسج کے زریعے پتہ چلتا کہ اس کی دولت پہلے سے زیادہ ہوتی جارہی ہے تو اس کی خوشی کی کوی انتہا نہ رہتی ۔ اس کی بیوی بھی ایک لالچی عورت تھی بجاے اسے روکنے کے ، وہ اس کا ساتھ دیتی بلکہ بیوی کی لامحدود فرمایشوں سے تنگ آکر ہی اس نے سود لینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس کے والدین اسے منع کرتے کرتے اس دنیا سے چلے گے ۔
وہ اب ایک کروڑ پتی آدمی بن چکا تھا ۔ اسے وہ سب کچھ مل چکا تھا جس کی اسے خواہش تھی لیکن اس سب کو حاصل کرنے کیلیے اس نے وہ سب کھو دیا جو اس کی اصل کامیابی کے لیے ضروری تھا۔ اسے دولت اور شہرت تو مل گی لیکن اس نے وہ راستہ اختیار کیا جو الله کے غضب کو دعوت دیتا ہے.
اب آہستہ آہستہ اس کی عمر ڈھلنے لگی . اس کی اولاد کی تربیت نہیں ہوی تهی کیونکہ باپ نے ہمیشہ انہیں بهی دنیا کمانے کی ہی ترغیب دی تهی . اس کے بیٹے ایک ایک کرکے علیحدہ ہونے لگے اس نے کچه نہ کہا کیونکہ اس نے بهی تو ایسا ہی کیا تها اپنے والدین کے ساتھ. ان کی نصیحتوں سے تنگ آکر انہیں اکیلا چهوڑ گیا تها .
اس سب کے باوجود اس کی لالچ میں کمی نہ آی .پهر اس کے گناه میں شریک اس کی بیوی کو کینسر ہو گیا .چند دن ہسپتال میں رہی اور پهر اس دنیا سے چلی گئ اس کے آخری الفاظ بهی شاہمیر کے پتهر دل کو پگهلا نہ سکے .
اس کی بیوی نے ہاتھ جوڑ کر کہا تها .سود چهوڑ دینا شاہمیر!
الله کو راضی کر لینا سود چهوڑ دینا. مگر اس نے اس کے الفاظ پر سوچا بهی نہیں. کچھ دن اس کا غم منایا پهر اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا .
ایک دن اس کی فیکٹری میں آگ لگ گئ جب تک وہ وہاں پہنچا تو وهاں راکھ کے ڈهیر کے سوا کچھ نہ مل سکا. وہ خالی ہاتھ ره گیا تها . وہ اپنے گهر کے علاوہ سب کچھ بیچ کر کچھ عرصے اپنا غم کم کرنے دبئ چلا گیا مگر جب واپس آیا تو اس کی آخری مادی متاع ، اس کا گهر زلزلے سے ملبے کا ڈهیر بن چکا تها اور اس کا وہ بینک اکاؤنٹ…… اس کی رقم اس کی اولاد اسے مردہ قرار دے کر آپس میں بانٹ چکی تهی . اس کے پاس کچھ نہ رها تها . آخری وقت میں اس کے بیٹوں نے اسے گهر میں رکهنے سے بهی انکار کر دیا . اب مزید کچھ نہیں بچا تها وہ ایک دارالامان میں رہنے لگا . اور وہیں اسے الله یاد آیا . الله سے وہ کتنے ہی عرصے سے جنگ کر رہا تها اور الله نے اسے اس کے گناهوں کی سزا دی تهی .
مگر الله اپنے بندے سے ستر ماوں سے زیادہ پیار بهی کرتا هے اسی لیے جیسے ہی شاہمیر کو اپنے گناه پر ندامت ہوئ الله نے اسے توبہ کی توفیق عطا فرما دی.
************************
وہ اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا. اس کے ساتھ آج اس کا غرور بھی خاک ہو چکا تھا۔اس نے اس دنیا کی لالچ میں سب کچھ کھو دیا ۔ مال و دولت کی اب پرواہ نہ تھی مگر اس نے اپنے تمام رشتے کھو دیے تھے ،اپنا سکون کھو دیا تھا اور سب سے بڑھ کر اپنے الله کو ناراض کر دیا تھا ۔ اسے یقین تھا کہ اس کے گھر والے تو اسے بھول چکے ہوں گے مگر ایک امید ابھی باقی تھی جس امید پر اس نے خودکشی کا ارادہ ترک کیا تھا ۔وہ اپنے الله کو راضی کر کے اس دنیا سے جانا چاہتا تھا اسے اپنے باپ کے وہ الفاظ یاد آے ” اس دنیا میں سب سے آسان کام الله کو راضی کرنا ہے ۔”
یہ سوچ کر وہ مسجد کی طرف چل پڑا ۔
اس نے یہ بات سوچ کر الله کا شکر ادا کی اکہ اتنے گناهوں کے باوجود الله نے اسے توبہ کی توفیق دی بیشک وہ الله بڑا غفورالرحیم ہے. وہ مسجد میں بیٹها یہ باتیں سوچ رها تها کہ اسے اس کے بیٹے کی آواز آئ بابا ہمیں معاف کر دیں ہم آپ کو لینے آے ہیں . الله نے ہم پر بڑا کرم کیا کہ ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور توبہ کی توفیق ملی .
اس نے الله کا شکر ادا کیا اور بیٹے کے ساتھ جاتے ہوے اپنے باپ کی بات دہرائ اس دنیا کا سب سے آسان کام الله کو راضی کرنا ہے.
………..اختتام…………..
ssi