میرا نام واصف با صفا
میرا پیر سید مرتضی
میرا ورد احمد مجتبیٰ
میں سدا بہار کی بات ہوں
( واصف علی واصف)
میرے پاس اتنا شور نہیں، میرے قلم میں اتنی طاقت نہیں ہے، اور نہ ہی میرے پاس اتنی ہمت ہے کہ میں اللہ تعالی کے برگزیدہ بندوں کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کر سکوں۔
میں ہوتا ہی کون ہوں۔۔۔۔۔؟
میری اوقات ہی کیا ہے۔۔۔۔؟
آخر میرے پاس ہے ہی کیا ۔۔۔۔۔۔؟
اے مالک کریم ! تجھ سے میری دعا ہے کہ تو مجھے حق سچ لکھنے کی توفیق عطا فرمانا۔۔۔۔۔۔
یہ بات چند سال قبل کی ہے۔ اس وقت میں میٹرک کے امتحانات کے بعد فارغ تھا۔ گھر میں ایسے ہی اپنی نارمل سی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ایک دن میرے ہاتھ ایک کتاب لگی۔ اس کو دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ اردو کی عام سی کتاب ہو گی۔
میں نے اسے ایسے ہی درمیان میں سے جنرل پڑھنا شروع کر دیا۔ جیسے جیسے میں پڑھتا چلا گیا۔ الفاظ میرے اوپر جادو کرتے گئے ۔ میری عجیب سی کیفیت تھی اس وقت ۔ الفاظ ایسے دل میں اترتے گئے کہ جیسے مجھے اس کی ہی تلاش تھی۔ وقت کا پتا بھی نہ چلا میں محو ہو کر پڑھتا اور پڑھتا ہی چلا گیا۔ اور الفاظ میرے کالے ضمیر کو روشن کرتے گئے۔
صرف چند لمحوں میں میری سوچ کے زاویے تبدیل ہوگئے تھے۔ میں سوچ رہا تھا
کہ کیا ایسے بھی ہو سکتا ہے؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
ایسا کیوں ہو سکتا ہے؟
مجھے کیا معلوم تھا کہ میری زندگی کے تمام راستے تبدیل ہونے والے ہیں۔ کہ اک انقلاب آنے والا ہے
میں نے کبھی پہلے اس بارے میں سوچا نہ تھا۔
المختصر یہ کتاب ” حضرت واصف علی واصف” کی تھی “دل دریا سمندر” اور جو مضمون اس وقت میں پڑھ رہا تھا اس کا نام ” خوش نصیب” تھا۔ آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجھے ایک ایک لفظ یاد ہے ۔
آج حضرت واصف علی واصف کا 92 ولادت باسعادت کا دن ہے. اتنے سال گزرنے کے بعد بھی حضرت واصف علی واصف کا فیض جاری ہے. آج بھی حضرت واصف علی واصف صاحب زندہ ہیں کیونکہ مرتا تو وہ ہے جس کا خیال مر جائیں، جس کی یاد مر جائے، جس کی سوچ مر جائے۔ اللہ کریم واصف صاحب کے صدقے ہمارے اوپر بھی کرم فرمائے اور دنیا و آخرت میں ہمارے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔
آمین !