ترکی کا تعارف
ترکی ایک عظیم قوم کی سرزمین ہے۔ جس نے مسلمانوں پر مغربی اقوام کی یلغاروں کا مقابلہ کیا اور آج تک اپنی آزادی کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ترکوں کا شمار اُن عظیم قوموں میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے دنیا کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ ترکوں نے مشرق میں دیوارِ چین سے لے کر مغرب میں اسکیہ تک حکومت کی۔ شمال میں کرینیا سے لے جنوب میں حجاز تک حکومت کی۔ اِن علاقوں میں ترک نسل آج بھی آباد ہے۔
سلطنتِ عثمانیہ
سلطنتِ عثمانیہ دنیا کی تاریخ کی ایک مضبوط اور طویل المدت راجانی سلطنت تھی۔ سلطنتِ عثمانیہ ایک بہت بڑی اسلامی طاقت اور سپر پاور تھی۔ جس نے مشرقِ وسطیٰ، مشرقی یورپ اور شمالی افریقہ کے بڑے علاقوں پر 600 سو سال سے زیادہ حکومت کی۔
سلطنتِ عثمانیہ کی ابتداء
اناطولیہ میں ترک قبائل کے ایک رہنما عثمانِ اول نے 1299 کے آس پاس سلطنتِ عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔ عثمانی ترکوں نے با ضابطہ طور پر اپنی حکومت قائم کی۔ جنہوں نے عثمان اول، اورہان، مراد اول اور بایزید اول کی سربراہی میں اپنا علاقہ بڑھایا۔
1453 میں سلطان محمد دوم نے بازنطینی سلطنت کے دارالحکومت، قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا۔ اُس وقت آپ ترکوں کی قیادت کر رہے تھے۔ اس کے بعد سے آج تک اُن کا نام سلطان محمد فاتح کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس طرح بازنطینی سلطنت کا ایک ہزار سالہ دور ختم ہو گیا۔ قسطنطنیہ کی فتح نہ صرف مسلمانوں کی تاریخ بلکہ تاریخِ عالم کے اہم ترین واقعات میں سے ہے۔
قسطنطنیہ اپنے عظیم و شان محلِ وقوع کی وجہ سے دنیا میں ہمیشہ سے ایک خصوصی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اِس کا نصف حصہ ایشیا میں ہے اور نصف حصہ یورپ میں ہے۔ اِن دونوں کو باسفورس جدا کرتی ہے۔ قسطنطنیہ دو برِاعظم یعنی ایشیا اور یورپ میں ایک سنگم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح دو سمندروں یعنی بحرہ روم اور بحرہ اسود میں بھی ایک سنگم کی حیثیت رکھتا ہے۔
قسطنطنیہ، جن سات پہاڑیوں پر آباد تھا۔ اُن سب کی چوٹیوں پر بڑے بڑے گنبدوں اور اُونچے اُونچے نوکیلے میناروں والی مسجدیں نمودار ہونا شروع ہو گئیں۔ اس طرح عیسائیت کا یہ سب سے بڑا مرکز اسلام کا رنگ اختیار کرنے لگ گیا۔ جس کی وجہ سے پہلے اس کا نام اسلام بول اور پھر استنبول رکھ دیا گیا۔ یہ نام بھی سلطان محمد نے رکھا اور اسے سلطنتِ عثمانیہ کا نیا دار الحکومت بنا دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ استنبول میں تعلیمی ادارے، مدارس اور کتب خانے بن گئے۔ استنبول تجارت اور ثقافت کا ایک غالب بین الاقوامی مرکز بن گیا۔
سلطنتِ عثمانیہ کا عروج
1517 تک بایزید کا بیٹا سلیم اول شام، عربیہ، فلسطین اور مصر کو عثمانیوں کے زیرِ اقتدار لے آیا۔ سلطنتِ عثمانیہ سلمان کے دور میں، 1520 سے 1566 کے درمیان عروج پر پہنچی۔
کون سے ممالک سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھے ؟
جب سلطنتِ عثمانیہ عروج پر تھی تب اِن کی درج ذیل خطوں پر حکومت تھی۔
ترکی
یونان
بلغاریہ
مصر
ہنگری
میسیڈونا
رومانیہ
اردن
فلسطین
لبنان
شام
شمالی افریقہ کی کچھ پٹی
عرب کے کچھ خطے
عثمانی فن اور سائنس
عثمانی فن، سائنس اور طِب میں اپنی کامیابیوں کے لئے مشہور تھے۔ فن کی کچھ مشہور شکلوں میں خطاطی، مصوری، شاعری، ٹیکسٹائل، قالین بنائی، سرامکس اور موسیقی شامل تھے۔ عثمانیوں نے جدید ریاضی، فلکیات، فلسفہ، طبعیات، جغرافیہ اور کیمسڑی سیکھی اور اِس پر عمل کیا۔
عثمانی میراث
چھ سوسال سے زیادہ حکمرانی کرنے کے بعد عثمانی ترکوں کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اُن کو یاد کرنے کے پیچھے چند وجوہات ہیں جو درج ذیل ہیں۔
ترکوں کی طاقت اور فوج
نسلی تنوع
فنکارانہ منصوبے
مزہبی راواداری
فن تعمیراتی معجزے
مجموعی طور پر 36 سلطانوں نے 1299 سے 1922 کے درمیان سلطنتِ عثمانیہ پر حکمرانی کی۔
پہلی جنگِ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح سلطنت عثمانیہ کے دورِ حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
معاہدہ لوزان
24 جولائی 1923 میں سوئٹزلینڈ کے شہر لوزان میں ایک تاریخی معاہدہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں ترکی میں جمہوریت قائم ہو گئی۔ اس معاہدے کو سو سال کے لیے ترکی میں نافذ کر دیا گیا۔ اس معاہدہ لوزان میں یہ طے پایا گیا کہ
ترکی اپنی سرزمین سے تیل نکالنے کی بجائے خریدے گا۔
باسفورس سے گزرنے والے جہازوں سے ٹیکس وصول نہیں کر سکے گا۔
دور خلافت کا خاتمہ کر دیا گیا اور سلطنت عثمانیہ کو ملک بدر کر دیا گیا۔
اس معاہدے کے بعد مصطفٰی کمال اتاترک نے ترکی کے پہلے صدر کی حثیت سے خدمات سرانجام دی۔ انہوں نے ملک کو تیزی سے سیکولرائز کر دیا۔ جس میں یکجہتی کا حصول شامل تھا۔ مزہبی اور دیگر عنوانات کا خاتمہ، اسلامی عدالتوں کی بندش، لباس کا قانون اور خاندانی ناموں پر قانون بھی شامل تھا۔
سال 1946 میں، انی کی حکومت نے کثیرالجماعتی انتخابات کا انعقاد کیا۔ جو اِن کی پارٹی، سی ایچ پی نے جیت لیا۔ وہ 1950 تک ملک میں صدر کی حثیت سے رہے۔ 1950 سے 1960 تک عدنان مینڈیرس کی حکومت رہی۔ 1960 سے لیکر 1974 تک دو دفعہ فوج نے بغاوت کی اور مارشل لاء لگا دیا۔ اس دوران سویلین حکومت بھی آتی جاتی رہی۔ 1980 میں فوج نے تیسری دفعہ مارشل لاء لگا دیا۔ 1983 سے 1989 تک ترگت اوزال نے وزیراعظم کی ذمہ داری سنبھال لی۔ 1990 سے 2001 تک مختلف سیاسی شخصیات آتی رہی مگر ترکی کے لئے کوئی بھی خاطر خواہ کام نہ کر سکا۔
رجب طیب اردگان کا دور
پھر ایک نئی سیاسی قوت پیدا ہوئی۔ رجب طیب اردگان جسٹس اینڈ ڈویلپمینٹ پارٹی (اے کے پی) نے معاشی اصلاحات کے دور کا آغاز کیا۔ جس نے معاشی اصلاحات کو بہتر بناتے ہوئے معاشی استحکام کا فائدہ اُٹھایا۔ انہوں نے ترکی کی یورپی یونین میں داخلی اور سیاسی منظر نامے میں فوج کی مداخلت کو کم کیا۔ 2002 کے الیکشن میں رجب طیب اردگان نے پہلی بار پارٹی لیڈر کی حثیت سے شمولیت اختیار کی۔ اِن کی پارٹی نے 3۔34 فیصد کی شرح سے الیکشن کو جیت لیا۔ 2007 میں جب طیب اردگان صدارتی الیکشن کے لئے نامزد ہوئے تو ملک میں جگہ جگہ مظاہرے ہونے لگے۔ احتجاج رکارڈ ہونے لگے اور انہوں نے اپنی کرسی عبداللہ گل کے ہوالے کر دی۔
2011 میں اِن کی پارٹی 327 سیٹوں سے جیتی اور تقریباً 50 فیصد کی شرح سے کامیابی حاصل کی۔ طیب اردگان کو لگاتار تیسری مرتبہ ترکی کے وزیرِاعظم بننے کا اعزاز حاصل ہو چکا ہے۔ 28 اگست 2014 کو وہ ترکی کے 12 ویں صدر منتخب ہوئے۔ ترکی میں پہلی بار ووٹ سے ایک صدر کا انتخاب ہوا تھا۔ 2019 میں ترکی کے بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ اورایک بار پھر سے طیب اردگان کی پارٹی نے واضع اکثریت سے انتخابات جیت لیے۔ اب ترکی کے اگلے صدارتی انتخابات 2023 میں ہونے جا رہے ہیں۔
آئی ایم ایف اور طیب اردگان
طیب اردگان ہی وہ لیڈر ہے جس نے اپنے دورِ حکومت میں آئی ایم ایف کا 123 ارب ڈالر کا قرضہ واپس کیا۔ طیب اردگان نے آئی ایم ایف کو قرضے کی آفر بھی کی تھی۔ ترکی میں 12 سال سے کم عمر بچوں کے قرآن پاک پڑھنے پر پابندی عائد تھی۔ انہوں نے اس پابندی کو ختم کیا۔ جس سے مدرسوں میں موجود 68000 کی تعداد 800000 میں تبدیل ہو گئی۔
رجب طیب اردگان کی خدمات
ترک صدر نے صرف ایک سال میں 2000 نئی مسجدیں تعمیر کروائیں۔ بہت سی بند مساجد کو دوبارہ بحال کیا۔ ترکی میں خواتین دورانِ ڈیوٹی حجاب نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن آج یہ پابندی ختم ہو چکی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 26 ارب ڈالر سے 150 ارب ڈالر تک تجاوز کروائے۔ ملک میں 26 نئے ائیرپورٹز تعمیر کروائے۔ دنیا میں صاف ساحلوں کا اعزاز پچھلے کئی سالوں سے ترکی کو حاصل ہو رہا ہے۔ اِن کے دورِ حکومت میں پانی، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈگ کو ختم کیا گیا۔ ترکش ائیرلائن کو یورپ کی پہلی اور دنیا کی 7 ویں بڑی ائیرلائن کا درجہ حاصل ہے۔
آیا صوفیہ کی عمارت
آیا صوفیہ کی عمارت کو دنیا کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ عمارت ڈیڑھ ہزار سال پرانی ایک تاریخی عمارت ہے۔ آیا صوفیہ جسے ہاگیا صوفیہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ عظیم ترین عمارت ترکی کے ایک شہر استنبول میں واقع ہے۔ ترکی کو ایک ہزار سال پہلے انا طولیہ کے نام سے جانا جاتا تھا اور استنبول کو قسطنطنیہ کہا جاتا تھا۔ آیا صوفیا یونانی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ‘حکمتِ خداوندی’ ہے۔
لکڑی کا چرچ
قسطنطین نے آیا صوفیہ عمارت والی جگہ پر 320 عیسوی میں عیسائیوں کے لیے لکڑی کا چرچ تعمیر کیا تھا۔ چھٹی صدی میں یہ چرچ جل گیا تھا۔
چرچ کی پختہ عمارت
بازنطینی بادشاہ جسٹینین اول نے سن 532 عیسوی میں اسی جگہ ایک پختہ عمارت کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ جو آیا صوفیہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کی تعمیر میں 5 سال 10 مہینے لگے تھے۔ اس کی تعمیر میں سب سے مہنگے سگِ مرمر استعمال کیے گئے۔ 537 عیسوی میں یہ عمارت تعمیر ہوئی۔ اُس وقت یہ آرتھوڈاکس چرچ کے سربراہ کا مقام بن گئ۔ 900 سال تک یہ آرتھوڈاکس کا گھر رہی تھی۔ اسی دوران کچھ عرصہ کے لیے یہ کیتھولک چرچ کی زیرِ انتظام رہی۔ ایک ہزار سال تک یہ عیسائیوں کی عبادت گاہ رہی ہے۔
جامعہ مسجد آیا صوفیہ
جب سلطنت عثمانیہ نے1453میں قسطنطنیہ پر قبضہ کیا تو اس شہر کا نام استنبول رکھ دیا گیا تھا۔ عثمان محمد فاتح نے اس عمارت کو مسجد میں تبدیل کر کے اس کا نام جامعہ مسجد آیا صوفیہ رکھ دیا تھا۔ اُسی دن اس مسجد میں نمازِ ظہر ادا کی گئی تھی۔ مسجد بنانے کے بعد اس میں موجود تمام تصاویر مٹا دی گئی تھیں۔ اس کے مہراب قبلہ رُخ کر دیے گئے تھے۔ اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا گیا تھا۔ تقریباً پانچ سو سال اس مسجد میں پانچ وقت کی نماز ادا کی جاتی رہی۔
مسجد آیا صوفیہ کی عجائب گھر میں تبدیلی
سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مصطفٰی کمال اتا ترک ترکی کا سربراہ بنا۔ 1935 میں اس نے اس مسجد کو عجائب گھر میں تبدیل کر دیا۔ اور اسے عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دے دیا ہے۔ یونیسکو نے کہا اس عجائب گھر کو مسجد میں تبدیل نہ کیا جائے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے اختلافات بڑھیں گے۔
عجائب گھر کا مسجد آیا صوفیہ میں تبدیلی
جولائی کے شروع میں کونسل آف سٹیٹ نے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ موخر کیا تھا۔ اب 10 جولائی 2020 کو ترکی کی اعلیٰ عدالت میں کہا گیا کہ1934 میں ہونے والا فیصلہ کسی طرح بھی قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جو کہ مسجد کو عجائب گھر میں تبدیل کرنا تھا۔ چنانچہ عدالت نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ رجب طیب اردگان نے بھی اس پر دستخط کر دیے تھے۔
اب 10 جولائی 2020 کو آیا صوفیہ کی عمارت کو عجائب گھر سے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اور 10 جولائی کو ہی اس مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی گئی۔
پاکستان اور ترکی کی تعلقات
پاکستان اور ترکی کے تعلقات کا آغاز ترک جنگِ آزادی سے ہوا۔ اس وقت شمال مغرب برطانوی راج کے مسلمانوں نے سلطنت عثمانیہ کی مالی امداد کی۔ جو کہ زوال پزیری کا شکار ہو چکی تھی۔ برطانوی راج میں رہنے والے مسلمان خلیفہ عثمان کو اپنا خلیفہ سمجھتے تھے۔ پاکستان اور ترکی کے ثقافتی، تاریخی اور فوجی تعلقات رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اب معاشی تعلقات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
سفارتی تعلقات
ترکی نے پاکستان کی آزادی کے بعد اسے جلد پہچان لیا تھا۔ ترکی نے پاکستان کی اقوامِ متحدہ کا رکن بننے کے لیے حمایت کی تھی۔ 1947 کی بعد دونوں ممالک کے ثقافتی، مذہبی، سیاسی اور جغرافیائی تعلقات دن بدن مضبوط ہوتے گئے۔ 26 اکتوبر 2009 میں رجب طیب اردگان کو ‘نشانِ پاکستان’ کہا گیا۔ پاکستان کا ایک سفارتخانہ ترکی کے شہر انکارہ میں ہے۔ ترکی کا ایک سفارتخانہ پاکستان شہر اسلام آباد میں ہے۔
معاشی تعلقات
پاکستان اور ترکی نے ترجیہی تجارتی معاہدے پر بات چیت کی ہے۔ جس کا مقصد تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا ہے۔ پاکستان چاول، تِل کے بیج، کھیلوں کا سامان اور کپڑے ترکی کو برآمد کرتا ہے۔ ترکی گندم، چنے، دال، ڈیزل، کیمیکل، مشینری، ٹرانسپورٹ گاڑیاں اورتوانائی کی مصنوعات پاکستان کو برآمد کرتا ہے۔
دونوں ممالک مفت تجارت کے معاہدے پر بھی بات چیت کر رہے ہیں۔
تاریخی اور ثقافتی
ترکی میں قدیم یونانیوں کے ثقافتی اور تاریخی بہت سارے اثرو رسوخ ملتے ہیں۔ پاکستان بھی یونانی ثقافت سے متاثر ہوتا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے لباس کے کچھ ڈیزائن ملتے جلتے ہیں۔ دونوں ممالک کے کچھ کھانے جیسے کباب اور حلوہ ایک جیسے ہیں۔
پاکستان اور ترکی کے موجودہ حالات
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ترکی کا دورہ کیا۔ جس سے پاکستان اور ترکی کے تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ترکی کے صدر نے بھی فروری 2020 میں پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ پاکستان میں ترکی کے ٹیلی ویژن شوز بہت شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔ اس کی مثال حال ہی میں لگے ‘ارتغرل غازی’ ڈرامہ ہے۔ ارتغرل غازی کو پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن نے اردو زبان میں ڈب کیا ہے۔
رجب طیب اردگان کو پاکستان پارلیمنٹ میں تقریر کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ
ہم ماضی کی طرح مستقبل میں بھی پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔
مزید کہا کہ
اب پاکستان اور ترکی کے شہری دوہری شہریت کا پاسپورٹ رکھ سکیں گے۔
پاک ترک مدد2005 کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ترکی نے پاکستانی عوام کی مدد کی تھی۔ ترکی نے 150 ملین ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان نے 1999 اور 2011 میں ترکی میں آنے والے زلزلے میں اس کی مدد کی تھی۔
سال 2023کا پوری دنیا کو کیوں انتظار ہے؟
سال 2023 کا ساری دنیا کو بے چینی سے انتظار ہے۔ کیونکہ 2023 میں ترکی کا 100 سالہ معاہدہ ‘معاہدہ لوزان’ ختم ہو رہا ہے۔ اس معاہدے نے ترکی پر بہت سی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اس معاہدے کے خاتمے سے ترکی ایک عالمی طاقت کے طور پر اُبھر سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے امریکہ اور مسلمانوں کے دشمن ممالک میں افراتفری کا عالم ہے۔ کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ کہیں مسلمان اکٹھے ہو کر پوری دنیا پر غالب نہ ہو جائیں۔ اس وجہ سے امریکہ ترکی کو طرح طرح سے دھمکا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی کے لیے طرح طرح کے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ وہ ترکی کو 2023 سے پہلے ہی کمزور بنانے کی کوشش میں ہے۔ لیکن ترکی کے صدر رجب طیب اُردگان ایک سچا پکا مسلمان ہے۔ جو ترکی کے لیے نمایاں کام کر رہا ہے۔ طیب اُردگان یہودونصاریٰ کی دھمکیوں کے آگے اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ دشمن ممالک ترکی کے حالات خراب کرنے کی مسلسل کوشش میں ہے۔
Also Read:
یہ قبر کیوں نہیں ڈوبتی؟ سندھ میں ہزاروں فٹ گہرے سمندر میں تیرتی یہ پُراسرار قبرآخر کس کی ہے؟
سال 2023 کے بعد کیا ہو گا؟
2023 کے بعد بہت اہم تبدیلیاں ہونے والی ہے۔ جس کی تیاریاں ترکی نے پہلے سے کر رکھی ہیں۔
سال 2023 کے بعد پوری دنیا میں انقلاب برپا ہونے والا ہے۔
ترکی روس سے دفاعی نظام ایس 400 خرید رہا ہے۔ اس نظام کے نفاذ سے ترکی کی حدود میں کوئی پرندہ بھی ترکی کی اجازت کی بغیر پَر نہیں مار سکے گا ۔ جسے امریکہ ناکام بنانے کی کوشش میں لگا ہے۔ امریکہ کی ان کوششوں کا طیب اُردگان منہ توڑ جواب دے رہا ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے کہا ہے کہ
سال 2023 کے بعد ترکی پہلے جیسا بیمار ملک نہیں رہے گا۔ بلکہ یہ ایک عالمی طاقت بن کر دنیا کی سرزمین پر اُبھرے گا۔
معا شی حالات بہت اچھے ہو جائیں گے۔
ترکی کا پرانا خواب پورا ہونے جا رہا ہے۔
ترکی باسفورس سے گزرنے والے بحری جہازوں سے ٹیکس وصول کرے گا۔
ترکی قبراس کے مسلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
اپنے کھوئے ہوئے علاقے پانے کے لیے اپنی جان لگا دے گا۔
سلطنت عثمانیہ کے سلطان ترکی واپس آ سکیں گے۔
ملک میں اپنا تیل نکالے گا اور دوسرے ملکوں کو برآمد کرے گا۔
اسلام کے نفاذ اور خلافت کو بحال کر سکے گا۔
سیکولرائزم سسٹم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
ترکی اپنی سرزمین سے پٹرول نکالے گا۔
ایک نئی نہر کھودے گا جو نہرالاسود اور مرمرہ کو باہم ملا دے گی۔
ترکی کے صدر اور ترکی کی عوام کو2023 کا بےتابی سے انتظار ہے۔