برصغیر پاک و ہند
کشمیر ،وادیِ نظیر.جب بھی ہم برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ تو یہ شروع سے ہی بہت سارے تنازعات اور لڑائیوں کا مرکز رہا ہے۔ کیونکہ اس خطے کی سرزمین سب سے زیادہ زرخیز ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں ہر ایک کو معاشی مقام حاصل ہے۔
موجودہ حالات
ماضی میں تنازعات کی شدت زیادہ حد تک خطرناک نہیں تھی۔ کیونکہ جدید ہتھیاروں کی بہت محدود فراہمی تھی۔ تاہم، اب حالات بہت بڑے پیمانے پر تبدیل ہوچکے ہیں۔ خطے میں اب بہت سی جوہری طاقتیں موجود ہیں۔ ان جوہری طاقتوں کے مابین کسی حل نہ ہونے والے تنازعہ کی صورت حال ہے۔ جس کی وجہ سے اب حالات کو زیادہ خطرناک بنا دیا گیا ہے۔ اس وقت، مسئلہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے مابین گذشتہ سات دہائیوں سے ایک ایسا ہی تنازعہ ہے۔
محیطی محاصرہ اور کشمیر
مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان نے گزشتہ ایک سال سے محیطی محاصرے میں لے رکھا ہے۔ اس مسٔلے کی سنگینی کا تصور تب تک نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک کوئی شخص ایسے حالات کا شکار نہ ہو۔ مزید برآں، ہندوستان کی حکومت اس مسٔلے پر بالکل بھی معزرت خواہ نہیں ہے۔ اس کے بعد ہندوستان نے منہدم بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا افتتاح کیا۔ جو مسلمانوں سے نفرت کی واضح مثال ہے۔
کشمیر میں کرفیو
گزشتہ سال سے ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں غیر معمولی کرفیو لگا رکھا ہے۔ مزید یہ کہ، عالمی برادری نے انسانی حقوق کی بے انتہا خلاف ورزی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کشمیریوں نے ناانصافی اور ان کے حقِ خود ارادیت کی تردید کو قبول نہیں کیا ہے۔ گذشتہ ایک سال کے واقعات نے یہ ثابت کیا ہےکہ کشمیریوں کا گودام دھماکوں کو جنم دے سکتا ہے۔ علاقائی امن کو تباہ کر سکتا ہے۔ سیاسی جغرافیہ کے تانے بانے کو ختم کر سکتا ہے۔ وسع پیمانے پر اُلجھنوں کو جنم دے سکتا ہے۔ ہندوستان کو مقبوضہ کشمیر میں رونما ہونے والے تباہ کن انسانی المیے پر توجہ دینی ہو گی۔ جس میں نسل کشی کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ بھارت نے کشمیریوں کی شناخت مَٹانے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان کا احتجاج
5 اگست 2020 میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں محاصرہ کیے ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ جس پر پاکستان نے شدید احتجاج کیا اور ایک نیا سیاسی نقشہ بھی جاری کیا۔ جس میں اسے پاکستان میں متنازعہ خطے کے طور پر نشان زد کیا گیا تھا۔ اب ان اقدامات پر عمل کرنا چاہیٔے جن میں یہ شامل ہیں۔
سفارتی محاذاور ڈپلومیسی
سفارتی محاظ پر پچھلے دو سالوں سے کشمیر کے مسٔلے کو فصاحت کے ساتھ اُجاگر کیا گیا ہے۔ لیکن اس دور سے پہلے مسٔلہ کشمیر کو بہت پہلے ہی پس منظر میں ڈال دیا گیا تھا۔ ماضی میں مسٔلہ کشمیر سے متعلق ڈپلومیسی غیر حاضر رہی اور معاملات ٹھیک طرح سے کام نہیں کر سکے۔ ڈپلومیسی کوئی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عمل کا نام ہے اور عمل غائب تھا۔ لہٰزا اس منازعے سے نمٹنے کے لئے جارحانہ سفارت کاری کی ضرورت ہے۔
مسٔلہ کشمیر اور موجودہ حکومت
کشمیری عوام کے لئے ایک الگ سے نمائندہ ہونا چاہیے۔ جو مسٔلہ کشمیر کی واضح طور پر رہنمائی کرے۔ کیوں کہ وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے پاس وقت بہت محدود ہے۔ وہ اپنی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے اس مسٔلے کو صحیح طریقے سے نہیں دیکھ پا رہے۔ حالانکہ عمران خان نے بین الاقوامی اسٹیج پر اس مسٔلے پر سختی سے روشنی ڈالی تھی۔ لہٰزا، کشمیر کے لئے ایک خصوصی مندوب وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو بھی رائے شماری کے لئے ایک مُشیر نامزد کرنا ہو گا۔ جو کشمیریوں اور بیرونِ ملک مقیم کشمیریوں کے تعاون کو اکھٹا کرے اور ان کو تیار کرے۔
جیسا کہ دنیا اب جانتی ہے، کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں ہے۔ اب یہ ایک بین الاقوامی متنازعہ ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارت کے اقدامات یو این ایس سی کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی تھے۔ ان اقدامات کی وجہ سے ان کے اپنے رہنماؤں کے وعدوں کی بھی خلاف ورزی ہوئی۔
تاریکی سال
یہ سال مقبوضہ کشمیریوں کے لئے تاریخ کا سب سے تاریک ترین سال ہے۔ اس ایک سال میں ہندوستان نے کشمیریوں کی اقلیتوں کے خلاف من مانی، گرفتاریاں، قتل و غارت کی۔ اس کے علاوہ تشدد، عصمت دری، نفرتوں اور زمینوں پر قبضے کئے۔ کشمیری عوام پر اپنا دباؤ ڈھیلا کرنے کی بجائے جبر کو دو گُنا کرنے کے لئے کوویڈ 19 کا استعمال کیا ہے۔ بہت سی گرفتاریاں اور غیر قانونی قتل بھی کئے ہیں۔ 30000 نوجوان کشمیری لڑکوں کو زبردستی غائب کر دیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ اور مسٔلہ کشمیر
اقوامِ متحدہ کا ادارہ دنیا بھر میں قیامِ امن کا ضامن ہے۔ مگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ ادارہ چند بڑی طاقتوں کی جاگیر بن چکا ہے۔ روس کے ٹوٹ جانے کے بعد اقوامِ متحدہ مکمل طور پر امریکہ کی لونڈی بن چکا ہے۔ روس نے مسٔلہ کشمیر کو ویٹو کیا۔ امریکہ نے بھی اسلام سے دشمنی کی وجہ سے اس مسٔلہ پر اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ بدلتے ہوئے حالات میں یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ عالمی ادارہ اپنا کردار ادا کرے گا۔ پاکستان نے کمزور اور ناقص خارجہ پالیسی بنائی۔ جس کی وجہ سے اس مسٔلہ کو عالمی مسٔلہ بنانے میں بُری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب صورتِ حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ چین، ایران اور سعودی عرب جیسے دوست بھی حمایت نہیں کر رہے۔
دوسری بارکرفیو
6 اگست 2020 میں ہندوستان نے دوسری بار مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا۔ جس پر “یو این ایس سی” نے انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ جو 70 سال سے زیادہ عرصے سے اس کے ایجنڈے میں ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت۔ “یو این ایس سی” کے لئے نہ صرف بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا عائد ہے۔ بلکہ اس کی قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا بھی ہے۔
معاشی طاقت اور کشمیر
معاشی طاقت کو ہی آج کی دنیا کی اصل طاقت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ہندوستان کو انسانیت کے بارے میں بھی سوچنا چاہیئے۔ انہیں کشمیر میں کرفیو ختم کر دینا چاہیئے۔ کیونکہ آزادی کشمیریوں کا بنیادی حق ہے۔ امن اور سلامتی کو ایک موقع دینا چاہیئے۔ ورنہ بنیاد پرستی کو سنگین عبرت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ تنازعات اور جنگوں نے کبھی کسی قوم کو فائدہ نہیں پہنچایا۔