بسمہ تعالی
اسلام علیکم
تمام قارئین حضرات امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے اور اپنی اپنی مصروفیات میں مصروف ہوں گے
ایک ڈاکو نے اپنا واقع خود بیان کیا
کہ میں جب چوتھی کلاس میں تھا تو ایک دن میری پینسل مجھ سے گم ہوگئ میں نے جب اپنی والدہ کو بتایا تو انہوں نے مجھے سزا کے طور پہ بہت مارا مجھے بے عقل کہا اور گالیاں دیں اور مجھے بے حسی کہا دوسرے دن میں نے اپنے ساتھ وعدہ کیا کہ آج میں خالی ہاتھ اپنی والدہ کے پاس نہیں جاؤں گا اسلئے میں نے ارادہ کیا کہ آج میں اپنے دوستوں کا قلم چراوں گا آنے والے دن
میں میں نے منصوبہ بنااور میں نے ایک یا دوقلم چرانے پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنی کلاس کے تمام لوگوں کے قلم چرا لئیے
شروع شروع میں میں ڈر محسوس کرتا تھا پھر آہستہ آہستہ مجھے حوصلہ ملا
اور میرے دل میں ڈر کی کوی جگہ نہ رہی
اور پھر میں ساتھ والی کلاسوں میں جانے لگا اور پھر آہستہ آہستہ پرنسپل کے کمرے تک جا پہنچا اور آج میں ایک بڑا ڈاکو ہوں
اور اب یہ میرا بہترین مشغلہ ہے
اب حقیت یہ ہے کہ کوی انسان ماں کے پیٹ
میں کچھ نہیں بنتا بلکہ جو کچھ بنتا وہ اسی جہان میں بنتا ہے اب ماؤں کے زمہ ہے کہ انہیں بسم اللہ پڑھ کے دودھ پلائیں یا گانا سنا کے اب ماؤں کی زمہ داری ہے کہ وہ ان کو لوری سنا کہ کے سلائیں یا آرام کرنے کیلیے شراب پلا کے سلادیں اسی لئے تو کہا جاتا ہے ڈائریکٹ کوی ڈاکو اور قاتل نہیں بنتا بلکہ پہلے وہ انڈہ چور پھر مرغی چور پھر بکری پھر گائے بھینس وغیرہ چراتا ہے اور پھر وہ آگے بڑھتا ہے اور یوں وہ ایک قاتل کی حد تک جا پہنچتا ہے
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہماری تمام نسلوں کو اس قسم کے تمام جرائم سے محفوظ رکھے آمین
وسلام آپ کا بھائی نجیب اللہ نجیب