رسول اکرمﷺکےاباء واجداد کا فاہ عامہ میں کردار
آپ ﷺ کےرفاہی کارنامے بیان کرنے سے پہلے ایک نظر آپ ﷺ کے آبا و اجداد کے چند رفاہی کاموں پر ڈالتے ہیں ۔ آپ کے جید امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے من جملہ دیگردعوتی کارناموں ، رفاہی کاموں اور قربانیوں کے ان کا ایک کارنامہ مہمان نواز ہوناہے ۔ عام مشہور ہے کہ جب تک کوئی مہمان ان کے ساتھ کھانا کھانے والا نہیں ہوتا تھا تو وہ کھانا نہیں کھاتے تھے۔ قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ مہمانوں کی آمد پر بچھڑا ذبح کرکے بھون کر لائے اور ان کے سامنے پیش کیا۔
آپ ان کے قریبی آبا و اجداد کی جو خدمات تاریخ، سیرت اورا حادیث کی کتب میں بیان ہوئی ہیں، ان میں حجاج کرام کی خدمت خاص طور پر نمایاں ہیں ۔ ان خدمات میں سے بڑے چار کام یہ ہیں:
۱۔الرفاده حجاج کرام جب حج کے لئے آتے اور ان میں سے جو لوگ اپنے کھانے کا بندوبست نہیں کر سکتے تو ان کے کھانے کا انتظام قریش کی طرف سے کیا جاتا اور ان کے واپس ہونے تک ان کو کھانا ملتا رہتا تھا۔
۲۔ السقایۃ مکہ مکرمہ میں پانی کی عام طور پر تنگی رہی ہے ۔ زم زم کا پانی کعبۃ اللہ اور اس کے اردگرد کے لوگوں کے لئے تھا۔ چنانچہ قریش نے تقسیم کار کر کے تمام حاجیوں کو حرم ، منیٰ اور عرفات میں پانی پہنچانے اور پلانے کا کام اپنے ذمے لیا ہوا تھا ۔ زم زم کے کنویں پر بھی یہ لوگ موجود رہتے اور پانی کھینچ کر لوگوں کو سیراب کرتے تھے۔
٣- الجابہ کعبۃ الله کی دیکھ بھال، اس میں آنے والے طائف وہدایا کی وصولی اور اس کی کلید برادری کی خدمت ان کے ذمے تھی۔ نیز اس کی مرمت وتعمیر بھی ان کے ذمے تھی۔
۴۔ دارالندوہ اورا للواء بڑے اہم معاملات کے لئے قریش کی زیرنگرانی دارالندوہ یعنی مشورے اور فیصلے کرنے کی جگہ ان کے پاس تھی ۔ نیز کسی لڑائی وغیرہ کے موقع پر جھنڈ ان کے پاس ہوتا تھا ۔
آپ ﷺ کے پر داداہاشم بڑی معروف شخصیت گزر رہی ہے ۔ ان کا اصلی نام عمرو تھا۔ پھر ان کے ایک کار نامے کی وجہ سے ہاشم مشہور ہوگیا ۔ ان کے دو کارنامے جو کہ خالصتاًخد مت خلق اور رفاہی کام ہیں،نہایت مشہور ہیں ۔ ہاشم بن عبد مناف نے سب سے پہلے قریش میں یہ دستور جاری کیا کہ سال میں دو مرتبہ تجارت کے لئے قافلے روانہ ہوا کریں گے ۔ موسم گرما میں قافلہ شام کی طرف جاتا ، جو لک ودک بیابانوں کو طے کرتا ہوا شام ، غزوه فلسطین او را نقره (انگوزہ ) جا پہنچتا جو اس وقت قیصر روم کے زیر تسلط تھا قیصر روم سے ہاشم نے قافلے کے ان کے ملک میں آنے اور کاروبار کرنے کی اجازت لی ہوئی تھی موسم سرما میں شمال کی طرف سردی اور برفباری ہوتی تھی اور یمن کی طرف گرمی ہوتی تھی ۔ لہذاموسم سرما میں عربوں کے قافلے ریگستانوں کو طے کرتے ہوئے یمن جاتے،اور سمندری راستے سے آتی ہوئی اشیاء خرید کر اور کاروبار کر کے واپس لوٹتے۔ یہاں شاہ حبشہ کی حکومت کی تھی، جناب ہاشم نے ان سے پروانہ تجارت لیا ہوا تھا ۔
ہاشم کا دوسرا کارنامہ جس کی وجہ سے ان کا نام ہاشم مشہور ہوا یہ ہے کہ ایک مرتبہ مکے میں قحط پڑا او رلوگ بھوک سے نڈھال اور لاغر ہو گئے ۔ اسی حالت میں انہوں نے اپنے اونٹ ذبح کئے ، ان کا گوشت پکوایا اور شور بے میں روٹیاں چور کر اہل مکہ کو کھلا ئیں او ریہ عمل حج کے دنوں میں بھی جا ری رہتا۔اس لئے ان کو ہاشم )روٹیاں چورے والا(کہنے لگے ۔ اسی طرح ان کا دستر خوان بہت وسیع تھا جو مسافروں ، غریبوں اور اجنبیوں کے لئے ہر وقت کھلا ر بتاتھا۔
آپ ﷺ کےسگے دادا عبد المطلب (المولود ۴۹۷ء) ہیں ۔ یہ جودوسخا میں ہاشم سے بھی بڑھ کر تھے۔ ان کی مہمان نواز کی انسانوں سے گز ر کر چرند وپرند تک پہنچ گئی تھی اس کی وجہ سے عرب کے لوگ ان کو فیاضی اور مطعم طیر السماء )آسمانوں کے پرندوں کو کھانا کھلانے والا ) کے لقب سے یاد کرتے تھے ۔ان کے دو بڑے رفاہی کارناموں کا تذکرہ کیا جا تا ہے۔
چشمہ زم زم کو کھودنا
آپ نے چشمہ زم زم کواچھی طرح کھود کر کشادہ کیا، اور پھر اس کے ارد گرد بڑے حوض بنوائے، جن میں پانی بھر کر حجاج اور مسافروں کو پلاتے تھے ۔
نذر پوری کرنا
عبدالمطلب نے نذرمانی تھی کہ میرے دس بیٹے ہو جائیں تو ایک بیٹے کواللہ کے نام پر قربان کر دوں گا۔ جب دس بیٹے ہو گئے تو نذر پوری کرنے کے لئے قرعہ ڈالا تو سب سے پیارے بیٹے عبدالله (والد نبی ﷺ ) کا نام نکلا ۔ اب ان کو لے کرذبح کرنے کے لئے حرم کی طرف چلے۔اس پر جناب عبدالله کی بہنیں رونے لگیں اور آخر کار یہ طے ہوا کہ عبد اللہ ایک طرف او ر دس اونٹ دوسری طرف کر کے قر عہ ڈالا جائے ۔اس پر قرعہ اندازی کی گئی تو عبداللہ کا قرعہ نکلا، اس پر عبدالمطلب دس، دس اونٹ بڑھا کر قرعہ ڈالتے گئے مگر قرعہ عبداللہ کے نام ہی نکلتا تھا، آخر جب سو اونٹ ہوئے تو قرعہ اونٹوں کے نام نکلا۔ پھر انہوں نے سواونٹ صفا اور مروہ کے درمیان ذبح کیے اس عمل کی وجہ سے آپﷺ کو ابن الذبیحین کہا جاتا ہے۔)ایک حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اور ایک جناب عبداللہ کی قربانی ) اس میں خدمت خلق کا پہلو یہ ہے کہ لوگوں نے پیٹ بھر کرگوشت کھایا او را پی غذائی ضرورت پوری کی۔
حضرت عبد المطلب اخلاق کی تعلیم بھی دیتے رہتے تھے، جیسے لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے رو کناء شراب اور زنا سے دور رہنے کی تلقین وغیرہ۔آپ ﷺکے آبا و اجداد کے رفاہی کاموں کے یہ چند تذکرے ہیں جومختصراً بیان کئے گئے ہیں۔