نبی اکرم ﷺکے بعثت ازقبل رفا ہی کام(حصہ دوم)
آپ ﷺ نے قبل نبوت رفاہ عامہ کے متعد د کا رنامے سرانجام دئیے ہیں لیکن سیرت و تاریخ میں اس دور کی بہت ہی کم باتیں مذکور ہیں ۔ چنانچہ اس دور کے بارے میں حضرت خدیجہؓ کا ایک اہم اور جامع تبصره ایسا موجود ہے کہ جس سے اس دور میں آپ ﷺ کے کاموں کا اندازہ ہوتا ہے، ا سے ہم آ گے بیان کریں گے۔
کعبۃ اللہ کی تعمیر میں حصہ لینا کعبۃ اللہ کی دیواریں گردش زمانہ اور سیلاب اور بارشوں سے زبوں ہو گئیں تو میں نے اسے دو بارہ تعمیر کرنے کافیصلہ کیا۔ تعمیر کے لئے پتھر حرم کے شمالی جا نب جبل کعبہ سے ڈھوکر لاتے تھے۔ نبی ﷺ پتھر ڈھونے والوں کے ساتھ پتھر کندھے پر اٹھا کر لاتے تھے ۔اس طرح آپ نے تعمیر کعبہ میں حصہ لیاکعبۃ الله مسلمانوں کو تفرقے اور علیحدگی سے بچا کرایک مرکز پر جمع کرنے کا کارنامہ سرانجام دیتا ہے۔
آپ ﷺکے خاندان بلکہ مکہ مکرمہ کے تمام باشندوں کا بڑا ذریعہ معاش تجارت تھا : عبداللہ بن ابی الحمساء سے روایت ہے کہ میں نے بعثت سے پہلے نبی کریم ﷺسے ایک کاروباری معاملہ کیا ، میر ے ذمے اس کی کچھ ادائیگی باقی تھی، میں نے عرض کیا کہ میں ابھی لے کر آتا ہوں ، اتفاق سے گھر جانے کے بعد اپنا وعد ہ بھول گیا تین روز کے بعد یاد آیا کہ میں آپ سے وا پسی کا وعدہ کر کے آیا تھا ، یاد آتے ہی فورا وعد ہ گاہ پر پہنچا تو آپ کو اسی مقام پر منتظر پایا۔ آپ نے صرف اتنا فرمایا کہ تم نے مجھے زحمت دی، میں تین روز سے اسی جگہ تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔
عبد الله بن سائب کہتے ہیں کہ میں زمانہ جاہلیت میں رسول ﷺ علم کا شریک تجارت تھا۔ جب مدینہ منورہ حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا کیوں نہیں ، آپ تو میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھا شریک،نہ کسی بات کو ٹالتے اور نہ ہی کسی بات پر جھگڑتے تھے ۔
قوم کو خونريزی سے بچانا :
نبی ﷺ کی عمر مبارک ۳۵ سال کے لگ بھگ تھی کہ اس دوران قریش نے کعبۃ الله کی تعمیر نو کا فیصلہ کیا۔ کعبتہ اللہ کی عمارت بنانے میں تو سب شامل تھے مگر جب حجر اسودنصب کرنے کا وقت آیا تو ان میں سخت اختلاف ہو گیا ، کیونکہ ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ یہ کام اس کے ہاتھوں سرانجام پائے ،چا ردن تک برابر یہی جھگڑا چلتارہا اور قریب تھا کہ تلواریں کھینچ لی جائیں اور خونریزی شروع ہو جائے ۔ آخر ابو امیہ بن مغیرہ نے جو قریش میں سب سے بڑی عمر کا تھا، یہ رائے دی کہ کسی کو حکم بنا کر اس کے فیصلے پر عمل کریں چنانچہ اس رائے کو مانا گیا اور طے ہوا کہ اب جوشخص حرم میں سب سے پہلے آئے گا وہی سب کا حکم سمجھا جائے گا۔ یہ بات طے ہوئی تھی کہ آنحضرت ﷺ تشریف لےآئے ، آپ کو دیکھتے ہی سب نے کہا کہ ھذا الامین رضیناہ،امین آ گیا۔ ہم اس کے فیصلے پر رضامند ہیں۔
آپ ﷺ نے اپنی دانائی اور معاملہ فہمی سے ایسی تدبیر کی کہ سب خوش ہو گئے ۔ آپ ﷺ نے ایک چادر بچھائی اور اس پر حجر اسود اپنے ہاتھ سے رکھا پھر ہر ایک قبیلے کے سردار کو کہا کہ سب سردا ر چادر کو پکڑ کر اٹھائیں ، اسی طرح اس پتھر کو وہاں تک لے گئے جہاں اسے نصب کرنا تھا، آپ ﷺ نے پھر اسے اٹھا کر اس کی اپنی جگہ کعبۃ اللہ کے کونے اور طواف کی جگہ پر لگادیا۔
آقا ﷺنے اس مختصراً اور بہترین تدبیر سے ایک خوفناک جنگ کا انسداد کر دیا ورنہ اس وقت کے اہل عرب میں ریوڑ کے پانی پلانے گھوڑوں کے دوڑانے، اشعار کہنےاور ایک قوم کو دوسری قوم سے اچھا بتانے جیسی ز راز راسی باتوں پر ایسی جنگ ہوتی تھی کی بیسوں برس ختم ہونے کونہ آتی تھی۔
حلف الفضول
نبی اکرم ﷺ کی عمر مبارک جب بیس سال کے لگ بھگ تھی ایک اہم معاہد ے کی تجدید ہوئی اس معاہد ے کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ عرب ممالک کی عام بدامنی، راستوں کے خطراک ہونے ، مسافروں کے لٹنے اور غریبوں پر زبر دستوں کے ظلم نے چند باشعور اور درد مند لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کا تدارک کریں، چنانچہ ایسا جذبہ رکھنے والے کچھ لوگ جمع ہوئے ان میں چند لوگ فضل بن فضالہ فضل بن وداع اور فضل بن حارث نام کے تھے، انہوں نے ایک معاہدہ مرتب کیا جو ان کے نام پر حلف الفضول کے نام سے مشہور ہوا ۔
حرب فجار
حرب فجار جو واقعہ فیل کے بعد بڑا واقعہ ہے، جس میں بہت خونریزی ہوئی تھی، اس کے نتیجے میں حجاز میں بڑی بد امنی ہوگئی تھی ۔ چنانچہ زبیر بن المطلب کی تحریک ،آپ ﷺعلم کی تحریک پر بنوہاشم اور بنو تمیم دونوں عبدالله بن جدعان کے گھر جمع ہوئے اور حلف الفضول کی تجدید کی، اس معاہدہ میں چند اہم شقیں تھیں اور ہر ممبر اس کا اقرار کرتا تھا۔
ہم مظلوموں کا ساتھ دیں گے، خواہ وہ کسی قبیلے کے ہوں یہاں تک کہ ان کا حق ادا کیا جائے۔
ملک میں ہر طرح کا امن و امان قائم کریں کرنا۔
مسافروں کی حفاظت کریں کرنا۔
غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔
کسی غاصب یاظالم کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔
آپ ﷺ اس معاہدے میں شریک تھے اس کے نتیجے میں پھر کسی قدر امن قائم ہوگیا۔ آپ ﷺ اس معاہدے کا ذکر کر کے فرماتے تھے کہ اس معاہدے کے مقابلے میں مجھے سرخ رنگ اونٹ بھی دیئے جاتے تو ہرگز پسند نہ کرتا او ر زمانہ اسلام میں بھی اس قسم کے معاہدہ کی طرف بلایا جاوٗں تو اس کی شرکت کو بلاچوں وچراں قبول کروں گا۔