خدائی کا دعوے دار دجال، اس کی آنکھوں کے درمیان لفظ کافر لکھا ہوا ہو گا اور وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا، اور ایسا نہیں ہو گا کہ وہ لفظ لوگوں کی نگاہوں سےچپھا ہوا ہو گا، بلکہ پڑھے لکھے لوگوں کی ساتھ ، ان پڑھ لوگ بھی اسے پڑھ سکیں گے، اور بےشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، وہ دجال اکبر کی آنکھوں کے درمیان لفظِ کافراس طرح لکھنے پرمکمل قدرت رکھتا ہے کہ اسے دنیا کا کوئی صابن اور کیمیکل نہ مٹا سکے گا، اور وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ ان پڑھ لوگوں میں پڑھنے کی صلاحیت پیدا کر دے۔
البتہ طور پر یہاں دو باتوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے، ایک تو یہ کہ بعض روایات میں دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ ”کافر“ حروفِ تہجی کے ساتھ الگ الگ کر کے لکھنے کا تذکرہ ملتا ہے یعنی یہ لفظ اس طرح ”ک ف ر“ لکھا ہو گا، اور بعض روایات میں حروفِ تہجی کے ساتھ لکھا ہونے کی تصریح نہیں ہے، اس لیے اس ناکارہ بندے کی رائے میں حروفِ تہجی والی روایت راجح ہے، لیکن معنی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے، اور دوسری بات یہ کہ کیا یہ لفظ حقیقتًا اس کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یا حدیث میں اس کا مجازی معنی مراد ہے؟
اس سلسلے میں بھی علماء کرام کی دو رائیں ہیں ۔ کچھ علماءاس کا مجازی مطلب مراد لیتے ہیں، ان کا یہ کہنا ہے کہ دجال اکبر کے چہرے پر ہی ایسی علامات ہوں گی جن سے اس کا حادث ہونا ثابت ہوتا ہو گا، ان علامات کو لفظِ کافر سے فرما دیا گیا ہے ، لیکن بیشتر علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ کتابت اپنے حقیقی معنی میں ہی ہے، اور حقیقی طور پر اس کی آنکھوں کے درمیان یعنی ماتھے پر لفظِ کافر لکھا ہوا ہو گا، اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ہے کہ اس کے کفر اور اس کے جھوٹ کی واضح علامت اس کے چہرے پر ہی نمایاں فرما دے، تا کہ ہر آدمی اسے آسانی سے شناخت کر سکے، اور اس کے فتنے سے اپنے آپ کو بچائے۔
تیسری قابل ذکربات دجالِ اکبر کی جنت اور جہنم کے متعلق ہے، اللہ تعالیٰ جب کسی کو ڈھیل دے دیتا ہے تواس کی رسی کو خوب دراز کرتا ہے اور جب اسے سزا دینے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس رسی کو کھینچ لیتا ہے، دجالِ اکبرجب خدائی کا دعویٰ کرے گا تو اللہ تعالیٰ دجال کو بھی ڈھیل دے گا، حتی کہ دجال اپنے ساتھ جنت اور جہنم کو لیے پھرتا ہو گا، جب کسی پر اپنا انعام واکریم کرنا چاہے گا تو اسے اپنی بنایئ ہویئ جنت میں داخل کر دے گا، لیکن درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جہنم ہو گی، اور جب کسی کو سزا دینا چاہے گا تو اسے اپنی بنایئ ھویئ جہنم میں داخل کر دے گا۔
بظاہر وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہو گی لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی ہی جنت ہو گی، جب لوگ اس کے ساتھ جنت اور جہنم کو دیکھیں گے تو وہ سب خوفزدہ ہوجائیں گے اور اس پر ایمان لانے لگیں گے، جب وہ یہ دیکھیں گے خاص طور پر کہ جن لوگوں نے دجال کو اپنا رب نہیں مانا، دجال نے انہیں بھڑکتے ہوئے شعلوں کی نذر کر دیا، وہ مزید مرعوب ہو جائیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ جس چیز کو جنت سمجھ رہے ہوں گے، وہ ان کی غلط فہمی، نظر یا ان کی سوچ کا دھوکہ ہو گی، لیکن حقیقت میں وہ جہنم ہو گی اور جس چیز کو لوگ جہنم سمجھ رہے ہوں گے ، وہ ان کی غلط فہمی ہو گی اور ان کی نظر کا دھوکہ ہو گا، حقیقت میں وہ جنت ہو گی، اسی لیے ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا اگر کسی آدمی کو دجال کا وہ زمانہ مل جائے اور وہ آزمائش میں پڑ جائے تو اسے چاہیے کہ بغیرکسی ھچکچاہٹ کے دجال کی جہنم میں چھلانگ لگا دے، وہ آگ اس کیلئے اسی طرح سلامتی والی اور ٹھنڈی بن جائے گی جیسے حضرت ابراھیم علیہ السلام کیلئے بن گئی تھی اور اسے اس سے کچھ نقصان نہ ہوگا، لیکن اگر وہ اس کی جنت میں کود جاے گا تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے بہت گھاٹے کا سودا کیا، اور وہ خسارے میں ہے ۔
اس لیے نبی ﷺ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ اس موقع پر انسان اپنی آنکھوں پر اعتماد نہ کرے، بلکہ نبی ﷺ کے حکم پر اعتماد کرے، اپنی بصارت کی بجاے، ایمانی بصیرت سے کام لے۔
اس لیے انسان کو چاہیے کہ بصارت کی بجائے اس موقع پر بصیرت سے کام لے تا کہ دنیا میں بھی سرخرو ہو اور آخرت میں بھی اس کا انجام اچھا ہوا۔
Thursday 10th October 2024 8:49 pm