حضرت عبداللہ خفیف رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ عہد شباب میں ایک شخص نے مجھے دعوت دی اور جب میں اس کے ہاں کھانے پر بیٹھا تو محسوس ہوا کہ گوشت سڑ گیا ہے لیکن چونکہ وہ شخص اپنے ہاتھوں سے نوالہ بنا کر کھلا رہا تھا اس لئے میں نے اس کی دل شکنی کی وجہ سے کچھ نہیں کہا اور جب اس کی نظر میرے چہرے پر پڑی تو وہ جان گیا اور بہت نادم ہوا اس کے بعد میں وہی سے حج کا قصد کر کے قافلہ کے ہمراہ جس وقت قادسیہ پہنچا تو اہل قافلہ راستہ بھول گئے اور کئ دن تک کھانے کو میسر نہ آیا آخر کار اضطراری حالت میں چالیس دینار کا ایک کتا خریدا گیا اور گوشت بھون کر جب سب کھانے بیٹھے تو مجھے اس شخص کی ندامت یاد آ گئی اور اس ندامت کے ساتھ راستہ مل گیا پھر حج سے واپسی پر میں نے اس شخص کو تلاش کر کے معذرت خواہی کے بعد کہا کہ اس دن تیرے ہاں سڑا ہوا گوشت میرے قلب پر بار بن گیا لیکن دوران سفر کتے کا گوشت بھی مجھے برا معلوم نہیں ہوا