عدیل فیکٹری میں کام کرتا تھا جو اس بڑے شہر کے وسط میں واقع تھی۔ وہ شہر کا رہنے والا تھا جس نے کبھی گاؤں کا منہ تک نہیں دیکھا تھا۔ وہ اور اس کی بیوی بچے شہر میں رہتے تھے جب کہ دیگر رشتہ دار کسی اور شہر میں مکین تھے۔ عدیل نے چونکہ پسند کی شادی کی تھی اس لیے یہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ اس شہر میں رہتا تھا اور قریب فیکٹری میں کام کرتا۔ دونوں میاں بیوی اپنے بچوں کے ساتھ اچھی زندگی بسر کر رہے تھے۔ عدیل کی فیکٹری میں ایک ملازم تھا جس کا نام عظیم تھا جو کہ دور کسی گاؤں کا باسی تھا۔ عدیل نے اس سے کہہ رکھا تھا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کسی دن اس کے گاؤں چلے گا مگر اسے وقت ہی نا مل سکا۔
گرمیوں کے دن گزرے، موسم خوشگوار ہوا تو عدیل نے اپنی فیملی کے ہمراہ گاؤں جانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے فیکٹری کے ملازم عظیم کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔ عدیل گھر سے بیوی بچوں کے ہمراہ بذریعہ ریل گاڑی گاؤں کے طرف روانہ ہوا۔ ریل گاڑی پر اس کا یہ پہلا سفر تھا۔ تین چار گھنٹوں کی مسافت پر عظیم کا گاؤں تھا۔ گاؤں آیا تو وہ اسٹیشن پر اترے، عظیم ان کو لینے کے لیے پہلے سے ہی اسٹیشن پر موجود تھا۔ اس نے ان کا سامان لیا اور جا کے ٹانگے میں رکھ دیا، وہ سب بھی اس میں بیٹھ گئے اور اس کے گاؤں کی طرف چل دیے۔ وہ اس کے گھر پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ عظیم کے گھر کچھ اور عورتیں بھی عدیل کی فیملی کو ملنے کے لیے آئی ہوئی تھیں۔
انھوں نے حال حوال بانٹا، کھانا کھایا اور کچھ دیر آرام کیا۔ اس کے بعد وہ گاؤں کی سیر کو چلے گئے۔ اس گاؤں میں پرانے عمارت جو بہت قدیم تھیں، موجود تھیں۔ سب نے ان کو دیکھا۔ پاس ایک دربار بھی تھی، اس لیے سب لوگ زیارت کرنے کے لیے ادھر چلے دیے۔ اس دن انھوں نے صرف قدیم عمارتیں اور دربار کی زیارت کی۔ گھر واپس آکر انھوں نے رات کا کھانا کھایا اور سو گئے۔ صبح ناشتے میں ان کو لسی اور پراٹھے دیے گئے۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ دوبارہ باہر سیر کے لیے چلے گئے۔ انھوں نے کھیتوں کو دیکھا، سادہ زندگی دیکھ کر حیران ہوئے مگر خوش بھی بہت تھے۔ دور ایک باغیچہ میں امرود کھائے اور دن کے وقت گھر کو لوٹے۔ عظیم کے گھر ایک بھینس بیمار تھی تو سب لوگ اس کے گھر پوچھنے کے لیے آرہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ اور پریشان ہوگئے کہ شہر میں ایک انسان اگر بیمار ہو جائے تو بہت کم لوگ عیادت کو آتے ہیں مگر ادھر تو سارہ گاؤں چلا آرہا ہے۔
اب ان کا تیسرا اور آخری دن تھا، وہ گاؤں کے باسیوں کو دیکھ کر حیران تھے اور ان کے طرز زندگی سے خوش تھے کہ یہ لوگ کس قدر سادہ ہیں۔ ان کو پورے گاؤں کی سیر کرائی گئی اور شام کو وہ اپنے شہر کی طرف روانہ ہوگئے۔ گھر پہنچنے پر انھوں نے آرام کیا اور صبح ہوتے ہی میاں بیوی نے گاؤں کے باسیوں کے بارے باتیں کیں۔ انھوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ کتنے سادہ مزاج لوگ ہیں۔ ان کے پاس دولت ہو نا ہو، مگر پیار بہت ہے۔ وہ سب آپس میں اتحاد کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ کوئی پریشانی ہو تو سب ایک ساتھ ہو جاتے ہیں۔ یہ سادہ لوح لوگ لڑائی جھگڑے نہیں کرتے۔ ان کے ہاں اگر ایک بھینس بھی بیمار ہو جائے تو اس کو پوچھنے کے لیے بھی آتے ہیں مگر شہر میں انسان کو پوچھنے والے کم ہیں۔ زندگی کی بڑی قیمت ہے گاؤں میں مگر شہر میں نفسا نفسی ہے۔ گاؤں کے باسی دھوکہ دہی کے نا واقف ہیں۔ گاؤں کے باسی بہت اچھے ہیں۔ میاں بیوی نے باتیں کی۔۔۔