کچھ لوگ با صلاحیت اور ہنر مند ہوتے ہیں، مگر اپنی زندگی کا نصب العین اور مقاصد کا تعین نہیں کرتے۔ کھلی آنکھوں سے کامیابی کا خواب دیکھتے ہیں اور تصورات میں لطف لیتے رہے ہیں مگر عمل کی دنیا میں سستی اور کاہلی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ بیماری ان کے لیے اور ان کی ترقی و کامیابی کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کر دیتی ہے۔
آج سے ٹھیک ایک سال پہلے بالکل اسی طرح سال کے پہلے دن کو ہم نے گرم جوشی ، جذبے اور ولولے سے خوش آمدید کہا تھا۔ نئے خواب، نئے منصوبے تھے۔ ہم یہ سوچ رہے تھے کے اس سال 2020 میں ہم نے یہ بھی کرنا ہے ، وہ بھی کرنا ہے۔ پھر کچھ یوں ہوا، فضا بدلی، حالات بدلے “کرونا “پاکستان میں داخل ہوا اور ہماری معیشت سے ہوتا ہوا ہمارے حواص پہ سوار ہو گیا۔ ہم میں سے بہت لوگوں نے بہت کچھ کھو دیا ۔ہم میں سے ہی بہت سے لوگ تھے جنہوں نے یہ سوچتے سوچتے 2020 کا پورا سال ضائع کر دیا کہ آج کچھ کرتے ہیں کہ کل کچھ کرتے ہیں۔ کاہل سال بھر کاہل رہے، سست سال بھر سست ہی رہے۔پورا 2020 کا سال ہم نے اس انتظار میں گزارا کہ کوئی خضر آئے گا ۔ بس وہ دن قریب آنے والا ہے کہ ہمارا وزیراعظم اپنے ہاتھوں سے نوالہ کھلائے گا۔
حکومت 12000 نہیں 24000روپے ہم نوجوانوں کا پکا پکا وظیفہ قائم کر دے گی بلکہ یوں کہیے کہ گھر ویلے بیٹھنے کی وجہ سے ہماری پینشن مقرر کر دے گی جس سے ہم بغیر کچھ کیے مزے سے یہ سال گزار لیں گے۔ پھر ہو ا کیا پینشن آئی نہ مزے آئے، ہاں سال ضرور گزر گیا کیو ں کہ اسے گزرنا ہی تھا۔ہم کسی بھی سال کے شروع ہونے سے پہلے اپنے آپ سے کتنے عہد کرتے ہیں ، توبہ کرتے ہیں ، استغفار کرتے ہیں کہ اگلے سال کچھ غلط نہیں کرنا بس ناک کی سیدھ میں زندگی گزارنی ہے۔ پھر اچانک دسمبر آجاتا ہے اور اگر کبھی ہم خواب غفلت سے جاگ ہی جائیں تو بس ہلکا سا جھٹکا محسوس ہوتا ہے کہ اف یار یہ سال بھی گزر گیا اور کچھ نہیں کر پایا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب تک “کرونا ” کی آڑ میں چھپے رہیں گے۔ ہم کب تک “اب کروں گا” یا”تب کروں گا” کی ناکام پالیسی پر رہیں گے؟ ہمیں اس دائرے سے باہر آنا ہوگا۔ عہد نہیں کوشش کرنا ہو گی۔
ہم اپنے گناہوں اور سست پن سے استغفار کیوں نہیں کر لیتے تا کہ کچھ نیاکچھ خاص کرنے کے لیے تیار ہو سکیں۔
آخر میں حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا قول مبارک پیش کرنا چاہوں گا، شاید یہ الفاظ ہمارے دل میں اتر کر ایسی تاثیر پیدا کر سکیں کہ اپنے آپ کو روحانی اور دنیاوی حوالے سے بدل سکیں۔
“خبر دار اللہ کے بندو!جب تک گلا گھٹنے میں مہلت ہے روح قید نہیں کی جاتی، عقل سلامت ، بدن میں آرام، حواس درست ارادہ موجود، توبہ کرنے کی فرصت ، گناہ سے پہلے غائب منتظر کے آنے اور اللہ تعالیٰ باقدرت کے حکم ِ فنا جاری ہونے تک توبہ کر لے۔”