حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا حفظ قرآن:- حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان صحابہ میں سے ہیں جو اپنے زمانے میں بہت بڑے عالم اور مفتی شمار ہوتے تھے۔ بالخصوص فرائض کے ماہر تھے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مدینہ منورہ میں فتوی قضاء فرائض، قراءت میں ان کا شمار چوٹی کے لوگوں میں تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت زید اس وقت کم عمر بچے تھے۔
گیارہ برس کی عمر تھی اسی وجہ سے خواہش ہونے کہ باوجود ابتدائی جنگیں یعنی بدر وغیرہ میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ ہجرت سے پانچ برس پہلے چھ سال کی عمر میں یتیم ہوگئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کے بعد مدینہ منورہ پہنچے تو بہت سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حصول برکت کی والسطے بچو کو بھی ساتھ کا رہے تھے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیے گئے۔ زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت پیش کیا گیا تو کہا گیا کہ یہ قبیلہ نجار کا ایک لڑکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل ہی آپ رضی اللہ عنہ نے قرآن پاک کی سترہ سورتیں قرآن پاک کی حفظ کرلیں تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امتحان کے طور پر مجھے پڑھنے کو ارشاد فرمایا۔ میں نے سورۃ ق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا قرآن کی تلاوت کرنا پسند آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خطوط یہود کے پاس بھیجنا ہوتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط یہودی ہی لکھتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہودیوں کی کو خط و کتابت ہوتی ہے اس پر مجھے بلکل اطمینان نہیں کہ کہیں گڑ بڑ نہ کر دیتے ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم یہ زبان سیکھ لو۔ زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پندرہ دن میں ان کی زبان عبرانی سیکھ لی اور اس پر عبور حاصل کرلیا۔ اس کے بعد سے جو تحریر ان کو جاتی وہ حضرت زید ہی لکھتے اور جو تحریر وہاں سے آتی وہ بھی میں ہی پڑھتا۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے بعض لوگوں کو سریانی زبان میں خطوط لکھنا پڑتے ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو سریانی زبان سیکھنے کے لیے ارشاد فرمایا اور حضرت زید نے سریانی زبان تقریبآ سترہ دن میں سیکھ لی۔ پڑوسی کے حقوق اور دوست کا حق اسوہ حسنہ میں: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
مجھے اس پروردگار کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ کوئی مسلمان مسلمان نہیں ہے جب تک کہ وہ اپنے ہمسائے کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔ ( صحیح مسلم ۔ الادب المفرد) حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہمسایہ کا حق یہ ہے کہ جب ہمسایہ بیمار ہو جائے تو اسکی بیمار پرستی کی جائے۔ اگر وہ وفات پا جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرے۔
اگر وہ ادھار مانگے تو اس کو قرض دے۔ اگر وہ ننگا ہے تو اس کو کپڑے پہنائے۔ اگر اس کو کوئی خوشی ملے تو اس کو مبارکباد دے اگر کوئی مصیبت آن پڑے تو اس کو تسلی دے اور اپنے مکان کو اس کے مکان سے اونچا نہ کرے تاکہ وہ ہوا سے محروم نہ رہے اور اپنے چولہے کے دہوئیں سے اس کو تکلیف نہ پہنچائے۔ (طبرانی)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی مسلمان بندہ مرتا ہے اور اس کے قریب تر پڑوسیوں میں سے تین آدمی اس پر خیر کی گواہی دیتے ہو تو تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے بندوں کی شہادت ان کے علم کے مطابق قبول کرلی اور جو کچھ میں جانتا ہوں اس کو میں نے بخش دیا۔ (مسند احمد) دوست کا حق:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی اپنے مسلمان بھائی سے خواہ مخواہ بحث نہ کیا کرو اور نہ اس سے کوئی ایسی بات کرو جس اس کی دل شکنی ہو اور اس کو ناگوار گزرے اور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کو تم پورا نہ کر سکو۔ (ترمذی). دوستوں کو جدا کرنا: حضرت عبدالرحمان بن غنم اور حضرت اسد بنت یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
بندگان خدا میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جو چغلیاں کرتے ہیں اور اور دوستوں میں جدائی ڈلواتے ہیں۔ (احمد و بہیقی) حفاظت مسلم:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پورا مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کے ایذا سے تمام مسلمان محفوظ رہیں۔ اور ان تمام باتوں کو چھوڑ دے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ (بخاری و مسلم)