جس کے ناموں کی نہیں انتہا
ابتدا کرتا ہوں اس کے نام سے
انداز بیاں گرچہ میرا شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات میرے ،بھائیو اور دوستو آج میں جس عنوان پر بات کر رہا ہوں وہ ہےامت مسلمہ کی پریشانی اور انتیشاری کا سب سے بڑا سبب دین اسلام سے روگردانی ہے عنوان کا آغاز شعرسے کرتا ہوں- سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
گزشتہ صدیوں کی تعاقب میں جھانکا دیکھنے سے تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ جب تک مسلمان اسلام کے عالمگیر اُصولوں پر عمل کرتے رہے زندگی کے ہرشعبےمیں کامرانی ان کی راہ تکتے رہے تھے لیکن جب اسلامی اصولوں سے روح گردانہ کی گئی تو بم خواہشات کے پنجرے میں آسیب بن کر ان کی زوال کے اسباب شروع ہیں کہ علامہ اقبال کو کہنا پڑا کہ وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر موجودہ نہ بدلہ ناگفتہ بہ حالت بتاتے ہیں کہ خون مسلم کی ارزانی جتنی اب ہیں کبھی بھی نہیں تھی عالم اسلام کی حالت دگر گوں ہے کہیں آتش و آہن کی برسات ہیں کہیں ظلم و بربریت کی سیاہ رات ہے کہیں اقتصادی پابندیاں ہے تو کہیں اقتداری سرگرمیاں ہے کہیں دہشت گردوں کی تلاش میں حفیف ماؤں اور بہنوں کی عصمت دری ہوتی ہیں تو کہیں اسلام کے نام پر بننے والے سربکف مجاہدین کو دہشت گرد سے موسوم کیا جاتا ہے نفرتوں کے لاوے آبشار بن گئی وفائیں داغدار ہوگئ ایمان قوتیں سنگسار ہوگئے
وجہ کیا ہے ذہن سوال کرتا ہے اقبال جواب دیتاہے گواہ دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی سریاسے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا گھر گھر سانس سرنگی کی آواز آنے لگی ہے الفت کے آئنے دھوند لا گئے محبتوں کو عداوتوں نے دودکارا پاک دامنی دفن ہو گئی احساس کے جنازے نکلے دلوں پر مادیت کی غلاف چڑھ گیئ برسوں سے ایک اگر میں کھیلے بھائی ایک دوسرے کے کمر بستہ ہو گئےایک گود کے پالے ہوئے ایک دوسرے سے عداوت کر گئے اسلام کی روشن قندیل کے معن پڑ گئی خود غرضی کے ایسے بیج بوئے گئے کہ علامہ اقبال لب کشائی بغیر نہ رہ سکے تو تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود کہنے والے کو کہنا پڑتا ہے بڑا غوغا ہیں سارے جہاں میں اہل بیت باطل کا کوئی فاروق پھر اٹھیں تو حق کا بول بالا ہے افسوس صد افسوس ایک وقت تھا کہ ایک اعلان پر پر جنگلی خوار جنگل خالی کر دیتا ایک وقت تھا ایمانی قوت کے غلطبے سے بکرے کے ریوڑ بیڑیوں کے ساتھ چرتے تھے
ایک وقت تھا کہ شیطان مردوں عمر رضی اللہ تعالیٰ سے راہیں بدلتا تھا ایک وقت تھا کہ مومن بال من شاء اقبال کا مزداک تھا یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن اس انقلاب درغشاں نے ایسے انسان پیدا کر دیئے کہ آیا تو ابو بکر تھا اٹھا توصدیق اکبر تھا آیا تو عمر تھا اٹھا تو فاروق اعظم تھا آیا تو تو عثمان تھا اٹھا توجامع القرآن تھا آیا تو علی تھا اٹھا تو اسداللہالغالب تھا آیا تو خنظلہ تھا اٹھا تو غسیل الملائکۃ تھا کھایا آیاتو حسین تھا اٹھا تو شہیدے کربلا تھا تو عباس تھا اٹھا تو مفسر قرآن تھا آیا تو حمزہ تھا اٹھا تو سید الشہداء تھارضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین حقیقت حقیقت ہوتی ہیں ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود اس میں بوسیدگی نہیں آجاتی جب اگ نے کروڑوں سال گزرنے کے بعد اپنی تپش نہیں چھوڑاچاند نے اپنی زیاں میں کمی نہیں کی تو پھر ایمان اپنی ہمت کیسے کو سکتا ہے جبکہ یہ بات مسلّم ہے کہاں معنی مہالم پر پر بارہا غالب آیا ہے اور ان حقائق نے ایمان کےآگے سر جھکا یا ہیں چاند ایک اشارے سے دو ٹکڑے ہو جاتے ہیں آگ گلزار میں تبدیل ہو جاتا ہے بجا کہا ہے کسی نے کہ آج بھی ہو اگر ابراہیم سا ایماں آگ کر سکتی ہے
انداز گلستاں پیدا لیکن راض یہ ہیں کہ کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے کچھ پتھر زمین میں میں دفن ہوتے ہیں جا کی فلک بوس اس فضا میں ابھرتے ہیں دانے زمین میں پٹھتے ہیں تب زمین کا سینہ سبزہ شاداب ہو جاتا ہے اسی طرح ایمان کو چمکانے کے لئے نوح علیہ السلام کی طرح پتھر ہر کھانے پڑھیں گے ابراہیم علیہ السلام کی طرح نمرودکے سامنے کلمہ حق کہہ کر آگ میں کھودنا پڑے گا نوح علیہ السلام کی طرح یہودیوں کے اذیت حل کھا نے پڑے گا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح طائف کے پتھر کھا نے پڑے گا تب جب بندہ فرش پر اللہ کا نام لے گا عرش سے لبیک یا ابدی کی آواز آئ گا اللہ صرف ڈھونڈنے والوں کو ملتا ہے شاعر نے کیا خوب کہا ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال کال اپنے آپ بدلنے کا المختصر نہ شاخیں گل ہی انچی ہے نہ دیواریں چمن بلبل تیری ہمت کی کوتا ہی تیری قسمت کی پستی ہیں یہ دنیا اہل دنیا کو وسیع معلوم ہوتی ہے نظر والوں کو یہ اجڑی ہوئی معلوم ہیں طلب کرتے ہو تم داد حسن وہ بھی غیروں سے ہمیں تو سن کر بھی ایک عارضی معلوم ہوتے ہیں میں رونا اپنا روتا ہوں تو وہ ہنس ہنس کے سنتے ہیں ان کو دل کی لگی اک دل لگی معلوم ہوتی ہے یہ کس نے کر دیا مجھ کو سب دوستوں سے بیگانہ اب اپنی دوستی سب دشمنی معلوم ہوتی ہے اگر ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا یہ ہیں اپنی کم ہمتی کہ بے بسی معلوم ہوتی ہے