بال آنکھوں میں ہے، مِیزان کہاں سے ہو گی
کھرے کھوٹے کی ہی پہچان کہاں سے ہو گی
جِس کی بُنیاد فقط جُھوٹ سہارے پہ رکھی
چِیز تسکِین کا سامان کہاں سے ہو گی
ماپنے کا ہی نہِیں خُود کو میسّر آلہ
اور کی پِھر ہمیں پہچان کہاں سے ہو گی
خُود پرستی ہو جہاں، لوگ مُنافع دیکھیں
زِندگی ایسے میں آسان کہاں سے ہوگی
راہ تکتے ہُوئے اِک عُمر گُزاری ہم نے
دُور اِک ہستی ہے مہمان کہاں سے ہو گی
آگہی ہم نے اِسے کاہے کو تعبِیر کیا
کج روی باعثِ عِرفان کہاں سے ہو گی
تُم نے بیکار سمجھ لی ہے حیاتی حسرتؔ
اِتنی بے ربط مِری جان کہاں سے ہو گی
رشِید حسرتؔ
Good