فیس بک پر سکرولنگ کرتے ہوئے ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی –
ویڈیو میں ایک یہودی پروفیسر ربی انٹرویو دے رہا تھا جسکی عمر ستر سال ہوگی –
ہمارے ہاں دینی علوم حاصل کرنے والے مولانا یا علامہ پکارے جاتے ہیں جبکہ یہودیوں کے ہاں ربی کہلائے جاتے ہیں –
پروفیسر تاریخ حال اور مستقبل پر گفتگو کر رہے تھے -وہ اینکر کو بتا رہے تھے کہ ماڈرن دنیا میں سب سے زیادہ ایجادات یہودیوں نے کی -بلب سے لے فیس بک تک اور طب فزکس کیمسٹری سے لے کر دنیا کے بہترین بینکنگ و کاروباری نظام تک یہودیوں کے کارنامے ہیں -نوبل پرائز لینے والوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ یہودی قوم سے ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جدید دنیا میں جتنی بھی ایجادات ہوئی یا میڈیکل اور ٹیکنالوجی میں جتنی بھی ترقی ہوئی اس میں سب سے زیادہ ہاتھ یہودی قوم کا ہے –
پروفیسر نے بتایا کہ ان سب سے زیادہ بڑا کارنامہ یہودی قوم کا یہ ہے کہ یہ واحد یہودی ریاست کو ابھی تک چھپن ممالک سے بچائے ہوئے ہیں-
آخر میں اس نے کہا کہ ہم اس دنیا کے معمار ہیں اور ہم نے دنیا کو بہترین لٹریچر شعر و ادب اور بہترین جدید ٹیکنالوجی دی –
میں نے پہلی مرتبہ کسی یہودی عالم کو دنیا کے تمام سیاسی سماجی معاشی معاملات پر بہترین انداز میں بات کرتے ہوئے سنا اور مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا-
ویڈیو ختم ہوئی تو سکرولنگ کرتے ہوئے ایک اور چھ منٹ کی ویڈیو سامنے آئی جس میں ایک پاکستانی عالم جو کم و بیش اسی سال کے ہوں گے مسجد میں بیٹھ کر سوالات کے جوابات دے رہے جو لوگ لکھ کے لائے تھے یا جنہوں نے مسیج کئے تھے –
خدا کی قسم ایک سوال بھی سیاسی سماجی معاشی یا دینی و دنیاوی نہیں تھا-
فرینڈ لسٹ میں موجود بہنوں بیٹیوں سے معزرت کے ساتھ- سوالات کچھ ایسے تھے-
کیا حالت حیض میں شوہر بیوی کے پاس جا سکتا ہے؟
کیا ایک شوہر دو بیویوں سے ایک کمرے میں سو سکتا ہے؟
کیا شوہر بیوی کے (آگے نا قابل بیان لفظ تھا)سکتا ہے؟
عرض کہ کچھ سوالات ایسے تھے جو میں یہاں لکھ بھی نہیں سکتا حتی کہ میں اپنے بے تکلف دوستوں کی محفل میں بھی نہیں سنا سکتا –
مولانا مکی حجازی ڈیڑھ دو سو لوگوں کی موجودگی میں مسجد میں بیٹھ کر چسکے لے لے کر سوالات سنا رہے تھے اور لوگ مزے لے لے کر سن رہے تھے –
ہر سوال اور جواب پر دائیں بائیں لمبی لمبی داڑھیوں والے مسکرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تھے –
ہمارے زوال کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں یا ہمارے پاس عقل نہیں -ہمارے زوال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان و بوڑھے ؛ہمارے عالم و جاہل ؛ہمارے سیاستدان و مذہبی رہنما ؛ہمارے جرنیل و جج ناف اور ناڑے سے اوپر سوچتے ہی نہیں -ہماری قوم اور امت کی سوچ ناڑے سے نیچے ہی رہتی ہے -یہ تمام تر توانائیاں دیسی ٹوٹکوں سے لے کر مردانہ کمزوری پر خرچ کرنے پر تلی بیتھی رہتی ہے جبکہ ایک کروڑ تیس لاکھ یہودی دنیا کا نظام چلا رہے ہیں –
ہمیں ناف اور ناڑے سے اوپر سوچنا ہوگا-ہمارے علما کو ازدواجی مسائل سے نکل کر لوگوں کو سیاسی سماجی معاشی مسائل سمجھانا ہوں گے نہ کہ سہاگ رات کے مسائل اور فضائل -تبھی ہم ترقی کر سکیں گے-