کوشش کا دیپ
یوں تو عموما میرے صبح کے معمولات ایک جیسے ہوتے ہیں.نماز تلاوت،پھر بچوں کو جگاکران کا ناشتہ اور لنچ بنانا اور چھوٹی بیٹی کی چوٹی تو لازمی بنانا ہی ہوتی ہے پر مہینے کا ایک یا دو دن ایسے ضرور ہوتے ہیں جب معمول سے ہٹ کر ذرہ افراتفری مچ جاتی ہے ۔ میری بڑی بیٹی ماہین عموما اپنی دوستوں کے ساتھ مل کر یونیورسٹی چلی جاتی ہے پر جب ساتھ جانے والا کوئی نہ ہو تو مجھے یا اسکے پاپا کو چھوڑ کر آنا پڑتا ہے.
آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا آخر وقت پر ساتھ جانے والی لڑکی نے کسی مجبوری کے تحت ساتھ جانے سے معذرت کرلی۔ ماہین کی آج ایک ہی کلاس تھی مگر بہت ضروری ،جسے وہ کسی صورت چھوڑنے پر راضی نہ تھی.میں نے ماہین کے پاپا کی طرف دیکھا تو انھیں مطمئن سوتے پایا چاروناچار مجھے ہی ساتھ جانا پڑا ۔انکی جیب سے چابی نکال کر عبایا پہنا اور ماہین کے ہمراہ گاڑی میں آبیٹھی.اسکی کلاس شروع ہونے میں وقت کم تھااسلئیے ذرا تیزی دکھائی شارٹ کٹ کے چکر میں کنیز فاطمہ والا روڈ پکڑا پر چونکہ گاڑی چلاتے زیادہ عرصہ نہیں ہوا اس لیے بھول گئی کہ چورنگی سے پہلا روڈ یونی کو جاتا ہے یا دوسرا ایک پولیس والے سے پوچھا تو اسنے صحیح راستہ سمجھا دیا.اسی وقت کالج بیگ کاندھوں پر لٹکائے ایک لڑکی پر نظر پڑی جو روڈ کنارے کھڑی تھی .ماہین نے کہا امی اسے لفٹ دے دیں .میں نے گاڑی اسکے قریب کی اور اسے ساتھ انے کی دعوت دی .پر اسنے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور نفی میں سر ہلادیا میں نے گاڑی آگے بڑھا دی.
پر اچانک میرے دل کو دھچکا سا لگا.میں نے سائیڈ مرر میں دیکھ لیا تھا کہ وہ دو قدم کے فاصلے پر کھڑے موٹر سائیکل سوار لڑکے کے پیچھے بیٹھ گئی تھی.میں نے ماہین کو نہیں بتایا.فیکلیٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسیز کے سامنے گاڑی روکی تو ماہین اپنے ڈیپارٹمنٹ میں چلی گئی میں نے ایک کھلی جگہ میں گاڑی پارک کی تبھی میرے قریب ایک بائیک آکر رکی. وہی لڑکی بائیک سے اتری اور لڑکے کی طرف ہاتھ ہلا کر بائے بائے کرتی ایڈمن بلاک میں چلی گئی.مجھے دکھ سا ہوااسکو اگر یونیورسٹی آنا تھا تو وہ ہمارے ساتھ آجاتی.
میں نے گاڑی لاک کی اور ہمیشہ کی طرح پریم گلی میں نکل آئی.اب خدارا یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ جوان بچوں کی ماں پریم دیوانی ہو گئی ہے. پریم گلی یعنی پی جی یونیورسٹی کے ایک فوڈ کورٹ کا نام ہے جہاں دنیا جہان کی کھانے پینے کی چیزیں ملتی ہیں میں نے اپنا فیورٹ اوریو شیک اور فروٹ چاٹ لی اور ایک طرف بینچ پر جا بیٹھی مگر میرا دماغ مستقل اس لڑکی کی طرف ہی لگا تھا. وہ لڑکا اسکا کون تھا بھائی بوائے فرینڈ یا پھر اسے لڑکوں سے لفٹ لینے کا چسکا تھا ایسا امکان کم تھا پر میں جانتی ہوں ایسا بھی ہوتا ہے ۔ میری بیٹی آئے دن مجھے یونیورسٹی کے قصے کہانیاں سناتی رہتی تھی. آجکل کے زمانے میں یہ کوئی بہت بڑی باتیں نہیں.جوان لڑکے لڑکیوں کا اختلاط عام ہوتا جارہا ہے یونیورسٹی میں لڑکے لڑکیاں جا بجا جوڑا جوڑا بیٹھے نظر اتے ہیں اور بعض تو اتنے قریب ہوتے ہیں کہ دل چاہتا ہے جا کر کہہ دوں “بیٹا زمین تنگ پڑ گئی ہے تو گود میں بیٹھ جاو” .پر مشکل تو ساری یہ ہوگئی ہے کہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے.بچوں کی زبانوں سے ڈر لگنے لگا ہے.خاندانوں کی تقریبوں میں،درسگاہوں میں ،پارکوں بازاروں میں اخر کہاں کہاں کس کس کو روکیں ایسے میں سگے بہن بھائی، باپ بیٹی ،ماموں بھانجی اور چچا بھتیجی بھی شک کے زمرے میں آجاتے ہیں.
ہمارے مذہب نے ہمیں بد گمانی سے بچنے کے لیے کہا ہے کہ”بعض گمان گناہ ہوتے ہیں”.بلاشبہ یہ حق ہے پر آجکل بےحیائی اتنی واضح نظر انے لگی ہے کہ صحیح غلط کا فرق مٹتا جارہا ہے.اوریو شیک اور چاٹ ختم ہو گئی پر میرے خیالات ختم نہ ہو نے. کچھ دیر بعد ماہین واپس آگئی اسنے اپنے لیے انار کا جوس لیا اور ہم گاڑی میں آ بیٹھے .واپسی کا سفر شروع ہو گیاپر میری ذہنی الجھن ختم نہ ہوئی آخرکار میں گھر پہنچنے سے پہلے اس نتیجے پر پہنچی کہ معاشرے میں پھیلی اس بےحیائی کی گندگی کو میں ختم نہیں کر سکتی پر میرے بس میں اتنا ہے کہ میں اپنے دائرہ اختیار میں کوشش کا دیپ جلاوں اور اسے طوفانی ہواوں سے بچائے رکھنے کی تدبیر کروں یعنی میں اپنی اولاد کوگاہے بگاہے زمانے کی برائیوں اور انکے نقصانات سے آگاہ کرتی رہوں انھیں دین سے قریب کرنے کی کوشش کروں ان پر قرانی آیات کا ورد کرکے پھونکتی رہوں اور ان سے یہ پوچھتی رہوں کہ زمانے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط تاکہ انکے اندر پلنے والی سوچ سے آگاہ رہوں.
میں آپ سب کے لیے دعا گو ہوں اور آپ سے اپنے لیے دعاوں کی درخواست کرتی ہوں کہ اللہ مجھے اور میری اولاد کو زمانے کی شوریدہ ہواوں سے محفوظ رکھے.آمین
از
کرن نعمان