انسان اپنی پوری عمر میں تین مراحل سے گزرتا ہے۔ ایک ہے بچپن، دوسرا جوانی اور تیسرا بڑھاپا۔ انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے بچپن کے دن شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ ان دنوں میں نا سمجھ ہوتا ہے۔ یہی دن اس کی زندگی کے رنگین دن ہوتے ہیں۔ وہ چلنا اور بولنا سیکھتا ہے۔ وہ ماں کی گود میں پرورش پاتا ہے۔ اسے ماں سے لگاؤ ہو جاتا ہے۔ وہ کھیلتا رہتا ہے اور اسی طرح اس کا بچپن یادوں سے بھرا گزرتا ہے۔ ان دنوں میں وہ سب کو پیارا ہوتا ہے۔ یہی دن اس کی تربیت کے دن ہوتے ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہوتی ہے جہاں سے اس کی تربیت ہوتی ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دن اس کے سیکھنے کے اہم دن ہوتے ہیں۔ پھر وہ سکول جانے لگ جاتا ہے۔ وہ تندرست رہتا ہے اور اسکی یاداشت بھی تیز ہی ہوتی ہے۔ ان مراحل میں وہ دین کی طرف بھی راغب ہو جاتا ہے۔ وہ تمام بنیادی علوم کو پڑھتا اور سمجھتا ہے۔
اس کے بعد اس کی جوانی کے دن شروع ہوتے ہیں۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب اسے زندگی کے معنی سمجھ میں آتے ہیں۔ انہی دنوں میں اسے رنج بھی ملتے ہیں اور خوشیاں بھی۔ وہ سکول و کالج کا طالب علم ہوتا ہے۔ اگر وہ دین پر قائم رہا تو وہ کامیاب ہے کیونکہ جوانی کی عبادت اللہ پاک کو بہت پسند ہے۔ جوانی کی زندگی میں خوشیاں و غم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انسان اپنے پیاروں کو کھو دیتا ہے۔ اسے زندگی کی تکالیف کا اندازہ ہونے لگتا ہے۔ یہ دور خوشی و غمی کا دور ہوتا ہے۔ انسان عملی زندگی میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسے نوکری بھی مل جاتی ہے۔ وہ شادی بھی کرتا ہے اور اسکی اولاد بھی ہوتی ہے۔ وہ ان کی پرورش بھی کرتا ہے اور اسے پتا چلتا ہے کہ اولاد کی پرورش کتنی مشکل ہے۔ وہ آہستہ آہستہ بوڑھا ہونے لگ جاتا ہے۔ بالوں میں سفیدی سی آجاتی ہے۔
پھر انسان بوڑھاپے میں پہنچ کر اپنی بقایا زندگی گزارتا ہے۔ اس میں وہ اپنی اولاد کی نصیحتیں کرتا ہے۔ وہ عبادات میں مشغول رہتا ہے۔ اسے زندگی کے تجربات سے زندگی کا پتا چل جاتا ہے۔ وہ گھر میں سارا دن رہتا ہے۔ پھر ایک نا ایک دن موت انسان کو آ پکڑتی ہے اور وہ لقمہ اجل بن کر رہ جاتا ہے۔ یہی انسان کی زندگی کے تین مراحل ہیں۔ جن میں بوڑھاپا سب سے مشکل ہے۔ اللہ پاک ان تینوں مراحل میں سب کے ساتھ آسانیاں پیدا فرمائے۔