Skip to content

خاندانی منصوبہ بندی،اسلام کہاں تک اس کی اجازت دیتا ہے؟

یہ طبی حقیقت ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد عورت میں کا فی کمزوری آ جاتی ہے۔ اسے دوبارہ اپنی معمو ل کی زندگی کی طرف لوٹنے کے لیے کافی وقفے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر پہلے بچے کی پیدائش کے بہت کم مدت کے بعد فوراً حمل قرارپاجائے اور دوسرا بچہ پیدا ہوجائے تو عورت کی صحت و تندرستی ضائع ہوجائے گی۔ اسے کھوئی صحت اور طاقت حاصل کرنے کاوقت ہی نہیں مل سکے گا۔ اس لیے بچے کی پیدائش کے بعد عورت کو اصولاً اتنا وقت ملنا چاہیے کہ وہ دوسرے بچے کی پیدائش کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہو جائے- اس لیے عورت کو حمل سے محفوظ رکھنے کے لیے ضبط تولید کے طریقوں پر ہی عمل کرنا چاہیے۔تاکہ اس دوران عورت کی صحت دوبارہ بحال ہوکر معمول کے مطابق آجائے ۔

عام لوگوں کا خیال ہے کہ ضبط تولید یا اسقاط حمل ہم معنی چیز ہے۔ اس خیال کی بنیا د پر برتھ کنٹرول کے مسئلے کو سمجھنے میں الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ حقیقت میں اسقاط حمل میں صیحح معنی پوشیدہ ہیں ۔ حمل ٹھہرنے کے بعد اس جاندار لوتھڑے کو غیر فطری طریقے سے باہر نکا ل کر ضائع کردیناجو جیتے جاگتے بچے کی شکل میں دنیا میں آنے والا تھا،سراسر قتل کے مترادف ہے۔ یہاں پر ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے۔ وہ یہ کہ اکثر خود بخود وقت سے پہلے رحم کی دیواروں کو سکڑنے یا کسی مرض کے تحت بھی اسقاط ہوجاتا ہے۔ مگر فطری اور غیر فطری فرق بہرحال ظاہر ہوجاتا ہے۔ اس طر ح سے غیر فطری طریقے سے جان کا ضائع کرنا یقیناً نسل کشی کے مترادف ہے۔ اور کوئی مہذب انسان اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ یہ اخلاقی اور مذہبی جرم ہے۔

کبھی حمل گرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ مگر ضبط تولید اس سے بالکل جداگانہ تصور ہے۔ ضبط تولید سے مراد جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ وہ تمام طبی آلاتی اور جراحی طریقہ کار ہیں جن کے ذریعے پیدائش میں اختیار اور مرضی کا حق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اس بات پر سخت حیرانی ہوتی ہےجیسے کہ عموماً خیال کیا جاتا ہے۔ کہ ضبط تولید موجودہ نئی تہذیب کی پیداوار ہے اور مغربی ممالک کے علمبردار ہیں۔ مگر جب اس مسئلے کو تاریخی روشنی میں دیکھاجاتا ہے تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ کہ یہ مسئلہ پرانے وقتوں سے ہی انسانی دماغوں میں گھومتا آرہا ہے۔ اطبائے نے اپنی تصنیف میں کہا ہے کہ جب عورت کی عمر کم ہو اس کا مثانہ کمزور ہو اور اس بات کا ڈر ہوکہ اس کے حاملہ ہونے سے ناگہانی مصیبت لاحق ہوجائے گی۔ تو عورت کو حمل سے بچانا چاہیے۔

علاوہ ازیں جن عورتوں کا رحم چھوٹاہویا ایسی بیماری میں مبتلا ہوں کہ عورت کوحمل کی تکلیف سے مرنے کا خدشہ لاحق ہو اس کو بھی مانع حمل کا طریقہ اپناناچاہیے۔جو کہ پانچ سو فقہاء اسلام کی تحقیق وتد قیق کے نتیجے میں معرض وجو د میں آیا ہے۔ اسلام میں بیوی کی اجازت سے ازل سے کوئی پابند ی نہیں ہے۔ حمل کے نتیجے میں ماں کے رحم میں جب تک بچے کے اعضاء نہیں بن جاتے اس وقت تک اسقاط حمل جائز ہے۔ اور بچے کے اعضاءا یک سو بیس دن میں مکمل نہیں ہوتے ۔ اس فتویٰ کی روشنی میں بہت سے ممالک میں ایک تحقیق کے تحت ایک سو بیس دن سے پہلے پہلے اسقا ط حمل کو جائز قر ار دیا گیاہے۔

حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔

اے لوگو! چارخصلتوں سے بچو ۔ کیونکہ یہ خصلتیں آرام کے بعد تکلیف میں، فراخی کے بعد تنگی میں ،اور عزت کے بعد ذلت میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ کثر ت اولاد سے، بہت گھٹیا معیار زندگی سے اور لایانی گفتگو سے ۔

اسلامی شریعت میں خاندانی منصوبہ بندی کے لیے دوائیوں یا دیگر طریقوں کااستعمال جائز ہے- بشرطیکہ اس کے مستقبل میں بانجھ پن نہ ہوجائے۔ دوسری تراکیب سے عورت کو بانجھ کرنا شریعت میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ سوائے اس کے جہاں کم از کم ڈاکٹر اپنی ماہرانہ رائے دے ۔ کہ دوسری بارحمل سے عورت کی صحت کو شدید خطرہ ہے یا اس کے لیے وہ مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔

1 thought on “خاندانی منصوبہ بندی،اسلام کہاں تک اس کی اجازت دیتا ہے؟”

  1. Pingback: میاں بیوی کا رشتہ - نیوز فلیکس

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *