Home > Articles posted by Qamar Ali
FEATURE
on Jul 7, 2021

اصحا ب کہف کے معنی غا ر والے کے ہیں ۔ یہ چند سچے مومن نو جوانوں کا قصہ ہے جس کو قرآن پا ک کی سورۃ کہف میں بیا ن کیا گیا ہے ۔ آج سے سینکڑوں برس پہلے کسی ملک میں ایک مشرک اور ظالم با دشا ہ تھا، وہ خود بھی اللہ کو چھو ڑ کر بتوں کی پو جا کر تا تھا اور دوسروں کو بھی بتوں کی پو جا کا حکم دیتا تھا ۔ جو ایسا نہیں کر تا اس کو سخت سزائیں دیتا ۔ ان کی سلطنت میں کچھ نو جوا ن بچے جن کی تعد اد تقریباً سا ت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو سیدھا راستہ دکھا یا ، یہ اللہ کو ما نتے اور بتوں کو پو جنے کو برا سمجھتے تھے ۔ ان کے ما ں با پ نے ان کو بہت سمجھایا کہ با دشا ہ کو اگر خبر ہو گئی تو تم لو گو ں کو قتل کر ا دے گا۔ لیکن ان نو جوانوں کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت گھر کر گئی تھی۔ ما ں با پ کی بھی نہ سنی اور اللہ تعا لیٰ کی تعر یف اعلا نیہ کر نے لگے۔ آخر ایک دن با دشا ہ کو خبر پہو نچ گئی۔ لڑکے ڈر کی وجہ سے ایک پہاڑ کے غا ر میں جا کر چھپ گئے۔ ان کے سا تھ ان کا کتا بھی تھا وہ بھی سا تھ چلا گیا۔ جب کو ئی شخص اللہ تعا لیٰ کا ہو جا تا ہے تو اللہ تعا لیٰ بھی اس کی مد د کر تا ہے ۔ جب یہ غا ر میں پہنچے توا للہ تعا لیٰ نے ان کو سلا دیا اور کتا غا ر کے منہ پر بیٹھ گیا، اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے سلا دیا ۔ اللہ تعا لیٰ نے اپنی نشا نی اور لو گوں کو اپنی قدر ت دکھا نے کے لئے تین سو نو سال تک سلا ئے رکھا۔ اس عرصہ میں پتہ نہیں کتنے با دشا ہ آئے او ر گز ر گئے ، زما نہ بدل گیا، لو گ بدل گئے۔ تین سو نو سال بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو تھو ڑی دیر کے لئے جگا یا ان کو ایسا معلو م ہوا کہ وہ ابھی سو ئے تھے، انہوں نے دیکھا کہ سب چیزیں اسی طر ح مو جو د ہیں ۔ جس طر ح وہ سو ئے تھے، کتا بھی اسی غا ر کے منہ پر بیٹھا تھا۔ ان کو بھو ک معلو م ہو ئی تو انہوں نے اپنے چند سا تھیوں کو سکے دئیے کہ چھپ چھپا کر کسی طر ح با زا ر جا کر کچھ کھا نا لے آئیں ۔ جب یہ سا تھی با زا ر گئے تو وہا ں کی ہر چیز بدلی ہو ئی نظر آئی۔ دوکا ن پر پہنچے، کھا نا خریدا، جب وہ سکہ دیا تو لو گوں کا بہت تعجب ہو ا کہ یہ سکہ فلا ں بادشا ہ کے وقت کا ہے ، جس کومرے ہو ئے کئی سو برس ہو گئے۔لو گوں کو شک گزرا کہ کہیں کوئی خزانہ تو ان کے ہا تھ نہیں لگ گیا ۔ آہستہ آہستہ یہ با ت اس وقت کے با دشا ہ تک پہنچ گئی ۔ یہ با دشا ہ بہت ایما ند ار تھا اور اللہ تعالیٰ کو اور روز قیا مت کو ما نتا تھا ۔ اس نے ان نو جو انوں کو اپنے دربا ر میں بلا یا اور سا را قصہ سنا ، با دشا ہ کو اور حا ضرین کو بہت تعجب ہو ا ۔ با دشا ہ مع دربا ریو ں کے اس غا ر تک آئے ، انہوں نے ان لڑ کو ں کو سو تا ہو ا دیکھا ان کی آنکھیں کھلی ہو ئی تھیں مگر جسم سو رہے تھے۔ با دشا ہ اور ان کے دربا ریوں پر ایک وحشت طار ی ہو گئی اور واپس چلے آئے۔ یہ لڑکے جو کھا نا لینے آئے تھے غا ر میں داخل ہو تے ہی اپنے سا تھیوں کے سا تھ مل کر دوبارہ سو گئے ۔ بادشا ہ اور ان کے دربا ریوں کو اور یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ بڑی طا قت اور قدرت والا ہے ۔ مر نے کے بعد وہ اسی طر ح زندہ کر ے گا جس طر ح ان غا ر والوں کو کیا ہے ۔ یہ لو گ اسی غا ر میں قیا مت تک سو تے رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے ہم کو بتا یا ہے کہ وہ اپنے ما ننے والوں کی حفا ظت کر تا ہے ۔ ظا لموں سے نجا ت کی ایسی صورتیں پیدا کر دیتا ہے جو کسی انسان کے وہم و گما ن میں بھی نہیں آسکتیں۔ ہم کو یہ بھی سبق ملتا ہے کہ جس شخص میں اللہ تعا لیٰ کی محبت پیدا ہو جا تی ہے وہ کسی بڑ ے سے بڑ ے با دشا ہ سے بھی نہیں ڈرتا ۔ تو آئیے ! ہم سب بھی اللہ تعا لیٰ سے محبت کر یں اور یقین پیدا کر یں کہ ہر کا م اسی سے ہو تا ہے اور جو کچھ ہو تا ہے اور جو کچھ ہم دنیا میں اچھا یا برا کا م کر یں گے ، قیا مت کے روز ہم کو اس کا بدلہ ملے گا ۔

FEATURE
on Jun 4, 2021

کنزالایمان ترجمہ مع تفسیر خزائن العرفان میں صدرالافاضل مو لا نا سید محمد نعیم الدین صاحب مرادآبادی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت خضر علیہ السلام کا نا م بلیا بن ملکان اور کنیت ابوالعباس تحریر کی ہے ۔ ایک قول ہے کہ آپ بنی اسرائیل سے ہیں ایک قول ہے کہ آپ شہزادے ہیں آپ نے دنیا ترک کر کے زہد اختیا ر کیا۔ آپ ولی تو بالیقین ہیں آ پ کی نبوت میں اختلاف ہے ۔ آپ کے لقب خضر کی وجہ احادیث میں یہ بیا ن کی جا تی ہے کہ آپ جہا ں بیٹھتے یا نماز پڑھتے ہیں وہا ں اگر گھا س خشک ہو تو سبز ہو جا تی ہے ۔ آپ کا زمانہ ذوالقرنین بادشاہ کا زمانہ ہے ۔ ذالقرنین نے جن کا ذکر قرآن مجیدکی سو رۃ کہف میں ہے ۔ ذوالقرنین کا نام سکندرہے یہ حضرت خضر علیہ السلام کے خا لہ زاد بھائی ہیں۔ انہوں نے سکندریہ بنا یا اور اس کا نا م اپنے نام پر رکھا۔ حضرت خضرعلیہ السلام ان کے وزیر تھے ۔ دنیا میں ایسے چار بادشاہ ہو ئے ہیں جو تما م دنیا پر حکمران تھے۔ ان میں سے دو مو من تھے ایک حضرت ذوالقرنین اور دوسرے حضرت سلیمان علیہ السلام ۔ دو کا فر تھے ایک نمرود اور ایک بخت نصر اور ایک پانچویں جو اس امت میں سے ہو نے والے ہیں جن کا اسم مبا رک حضرت اما م مہدی علیہ السلام ہے اور ان کی حکو مت بھی تما م روئے زمین پر ہوگی ۔ ذوالقرنین کی نبوت میں اختلاف ہے ۔ مولا علی مشکل کشا  نے ان کے بارے میں فرما یا کہ وہ نبی نہ تھے نہ فرشتے تھے بلکہ اللہ سے محبت کر نے والےایک انسان تھےاللہ تعالیٰ نے ان انہیں اپنا محبوب بنا لیا تھا ، انسان کو جس چیز کی حاجت و ضرورت ہو تی ہے اور جو کچھ بادشا ہوں کو ممالک فتح کر نے اور سلطنت کو وسیع کرنے اور پھیلانے کا اشتیا ق ہو تا ہے وہ سب کچھ اللہ رب العزت نے انہیں عطا کیا تھا ذوالقرنین نے کتابوں میں دیکھا تھا کہ اولا د سام میں سے ایک شخص چشمہ حیا ت سے پا نی پئے گا اور اس کو مو ت نہ آئے گی ۔ یہ دیکھ کر وہ چشمہ حیات کی تلا ش میں مغر ب کی طر ف روانہ ہو ئے اور آپ کے سا تھ حضر ت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو چشمہ حیا ت تک پہنچ گئے اور انہوں نے پانی پی بھی لیا مگر ذوالقرنین کے مقدر میں نہ تھا ۔ انہوں نے نہ پیا ۔ اس سفر میں جا نب مغر ب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی تھی وہ سا را فا صلہ طے کر لیا اور وہا ں پہنچے جہا ں آبادی کا نا م ونشان بھی نہ تھا ۔ وہاں انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا گویا کہ وہ سیا ہ چشمے میں ڈوبتا ہے جیسا کہ سمندر میں سفر کر نے والوں کو ڈوبتا نظر آتا ہے ۔ قصص الانبیاء میں یہ واقع اس طر ح قلم بند ہے :۔ ذوالقرنین نے علما ء اور حکماء سے پو چھا کہ تم نے کسی کتا ب میں دیکھا ہے کہ کو ئی ایسا نسخہ جس کے استعما ل سے عمر اتنی لمبی ہو جا ئے کہ آدمی تصور بھی نہ کر سکے یا ایسا نسخہ جس کے استعما ل سے آدمی کو مو ت نہ آئے ان میں سے ایک حکیم نے عرض کیا کہ حضور میں نے ایک قدیم کتا ب ‘وصیت نا مہ آدم’ میں لکھا دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک چشمہ آب حیا ت کو ہ قاف میں پیدا کیا ہے ۔ اس کا پانی دودھ سے زیا دہ سفید اور برف سے زیا دہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا ، مکھن سے نرم اور مشک سے زیا دہ خوشبودار ہے ۔ جو اس کو پئے گا اس کو مو ت نہ آئے گی اور قیامت تک زندہ رہے گا۔ اس پانی کا نا م آب حیا ت ہے یہ سن کر ذوالقرنین کے شو ق میں اضا فہ ہوا ۔ انہوں نے علماء سے کہا کہ آ پ بھی ہمارے سا تھ چلیں اور پوچھا ذرا یہ تو بتا ئیں کہ سواری کے لئے سب سے اچھا چست و چا لا ک جا نور کو ن سا ہو تا ہے ۔ وہ بولے ایسی اچھی نسل کی گھوڑی جس نے بچہ نہ جنا ہو۔ چنانچہ ذوالقرنین نے ایک ہزار گھوڑیا ں منگوائیں اور حضرت خضر علیہ السلا م کو سب سے آگے کیا یعنی رہبر بنا یا ۔ پھرعلما ء و حکما ء سے پو چھا کہ وہ وہاں پہنچنے کے بعد اگر اس جگہ جیسا کہ علما ء نے بتا یا تھا اندھیر ا ہو اتو کیا کر یں گے ۔ حکما ء اور علما ء نے کہا کہ ایسا کریں کہ شا ہی خزانے سے لعل و گوہر لے لیں اگر اندھیرا ہوا تو اس کی روشنی میں آگے بڑھیں گے۔ غرض ایک قیمتی لعل جو اندھیرے میں روشن ہو جا تا تھا ، لیا گیا اور حضرت خضر علیہ السلام کے حوالے کیا ۔ تخت و تا ج اور سلطنت ملا زموں میں سے ایک عقلمند اور دانا ملا زم کو سپرد کر کے با رہ سال کے وعدے پر اس سے رخصت ہو ئے ۔ جب کو ہ قاف پہنچے تو راستہ بھو ل کر اس جگہ ایک سال تک پریشان و سرگرداں رہے اور اسی اثنا ء میں حضرت خضرعلیہ السلام لشکر سے جدا ہو کر اندھیرے علا قے میں جہا ں سورج کی روشنی بھی نہیں پہنچتی تھی بھٹک گئے ۔ پھر خیا ل آیا تواس لعل کو جیب سے نکال کر زمین پر رکھ دیا اس کی روشنی سےاندھیر دور ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کی کر م نوازی سے چشمہ آب حیا ت کا ان کو نظر آ گیا۔ حضر ت خضر علیہ السلا م نے وضو کر کے آب حیا ت پی لیا اور خدا کا شکر بجا لا ئے ۔ چنا نچہ حضر ت خضر علیہ السلا م کی

FEATURE
on May 31, 2021

میر ا پیا ر اوطن پا کستان اس وقت کئی مختلف مسائل اورمشکلا ت میں گھر ا ہواہے ۔اس کو غربت ، بےروزگاری ، مہنگائی، دہشت گردی اور تعلیم کے فقدان جیسے کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ اسکے علاوہ روز بہ روز بڑھتا ہوا بیرونی قرضہ ایک ایسا نا سور ہے جو کم یا ختم ہونے میں نہیں آرہا بلکہ ہماری حکومت تو اس قرض کے اوپر جو سود دینا ہے اس کی اقساط بھی دینے سے قاصر نظر آتی ہے ۔ ہما را دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہما رے مو جودہ وزیراعظم عمر ان خان صا حب نے دین اسلام کو اپنا تے ہو ئے پاکستان کو ریا ست مدینہ بنا نے کا دعویٰ بھی کیا تھا اور ابھی تک اکثر و بیشتر وہ اپنی تقاریر میں یہ بات دہراتے ہو ئے نظرآتے ہیں کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنا کر رہیں گے۔ لیکن ان کے اس دعوے کی کو ئی معمو لی سی جھلک بھی کہیں پر نظر نہیں آتی ۔ کیونکہ ریاست مدینہ یا کسی اسلامی ریاست میں صاحب استطاعت لو گوں پر اڑھا ئی فیصد کی شرح سے زکوٰۃ واجب تھی اور اسی سے تما م حکو متی امو ر کو چلا یا جا تا تھا اوراسی زکوٰۃ سے ہی بیت الما ل اور کئی دوسرے فلاحی اداروں سےیتیم، مسکین اور نادار لو گوں کی مدد کی جا تی تھی اور سرکاری اداروں کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی بڑی خوش اصلو بی سے ہوجا تی تھی۔ ہمار ی عوام جو کہ زکوٰۃ دینے سے دل چراتی ہے وہی عوام کئی قسم کے ٹیکس (بلواسطہ یا بلا واسطہ ) بڑی خوشی سے دے رہی ہے جس کی شرح زکوٰۃ سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ہروقت ہماراحکمران طبقہ اسی بات کا رونا رو رہا ہے کہ ہمار ے پاس کوئی وسا ئل نہیں ہیں اورہماری معاشی حالت اتنی مخدوش ہے کہ کوئی سرما یہ کاری کرنے کوتیا رنہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے حکمر ان کام ہی اپنے وسائل سے بڑھ کر کر تے ہیں بہت ساری غیر ضروری وزارتوں اور اخراجا ت کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ۔حکو مت کو چا ہیے کہ اپنے اخراجات اور آمدنی کا توازن برقراررکھے تاکہ ملکی معاملا ت چلا نے کے لئے کسی قسم کے بیرونی قرضے کی ضرورت ہی نہ پڑے – ہم بڑے دعوے سے خود کو مسلما ن کہتے ہیں یہ اوربات ہے کہ ہم نے خود کو ان تما م خوبیوں سے دور رکھا ہوا ہے جو مسلما نوں کا خا صہ تھیں ہم میں نہ تو صدق و صف با قی ہے اورنہ فقروغنا ۔ نہ کو ئی ابوذر  ہے نہ عثمان غنی  اور نہ ہی ہما رے حکمر ان عمر فاروق  یاعلی جیسے ہیں ۔ یہ وہ لو گ تھے جن کا دامن صا ف تھااور دوسروں کی پکڑ کر سکتے تھے اور خود کو ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے۔ بس یہی وجہ تھی کہ خوف خدا انہیں ہر غلط کام سے روک دیتا تھا۔ یہ عوام کو اپنا محتسب سمجھتے تھے اور خود کو ان کا خا دم۔ آج ہما ری یہ قدریں غیروں نے اپنا لی ہیں جب کہ ہم حرص، طمع اور ہل من مزید کے بندے بن کر رہ گئے ہیں ۔دوسرے ممالک خصوصاً غیر مسلموں سے قرض ما نگنا ہم نے اپنی عادت بنا لی ہے ۔ مانگی ہوئی جنت سے دوزخ کا عذاب اچھا کی بات تو درکنا ر ہم میں فردوس بریں پیداکرنے کی ہمت ہی ختم ہو گئی ہے ۔ حکومتی سطح پر بھی ہم نے ما نگ کر ادھا ر لے کر کا م چلا نے کی روش اپنا ئی ہو ئی ہے ۔ ہما رے بے حس حکمر انو ں نے کبھی اس قوم میں خودداری اور خودی پیداکر نے کی کو شش ہی نہیں کی۔ انہوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد کو قومی مفا د پر مقدم سمجھا ۔ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ حا صل کر نے کو بھی اپنی بہت بڑی کا میا بی گردانتے ہیں ۔ ورنہ ایسا نہیں ہے کہ اس قوم کے افرادی قوت یا قدرتی وسا ئل کی کمی رہی ہو۔ اس ملک کی زمین میں قدرت کی طر ف سے عنا ئت کردہ پو شیدہ خزا نے ان بائیس کروڑ انسانوں کے چوالیس کروڑ ہا تھو ں کے منتظر ہیں ۔ ضرورت صرف ان ہا تھوں کو کا م میں لا نے والے ذہنوں کی ہے اور بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہما رے ملک میں حکمر ان طبقہ اس کو اپنی ذمہ داریو ں میں شما ر نہیں کر تا۔ ایسے لگتا ہے. جیسے ملک کو عارضی بنیا دوں پر چلا یا جا رہا ہو ۔ قرض پر قرض لئے جا ر رہے ہیں اور پا کستان کا ہر شہری اس وقت ایک محتاط اندا زے کے مطا بق اتنی رقم کا مقروض ہے جتنی رقم (170000)شا ئد اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی ۔ بیر ونی قرضوں میں کمی ہو نے کی بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ اس سال بھی ان بیرونی قرضوں میں 40فیصد اضا فہ ہوا ہے ۔ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اسے کہیں پر بھی ترقیاتی کا مو ں پرخر چ نہیں کیا گیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سب طبقہ خواص میں خر چ ہو رہا ہے اور امیر امیر تر ہو تا جا رہا ہے ۔اس طبقے کو اس سے کو ئی فر ق نہیں پڑتا کہ آٹا سا ڑھے پا نچ سو روپے فی بیس کلو بڑھ کر ہزاریا گیا رہ سو تک کیسے پہنچا۔ کیا اس سے بڑے زمینداروں کے علا وہ بھی کسی کو فا ئد ہ ہواخاص کر وہ لوگ جو اکثریت میں ہیں اور آٹا خر ید کر کھاتے ہیں ۔ وہ کس حا ل میں ہیں کیا ان کی بہتری کے لئے بھی کوئی منصو بہ شر وع کیا گیا ۔ کچھ دن پہلے غریب عوام کے سروں پر چینی کا بم پھوڑا گیا شوگرملز مالکا ن کے سا تھ ہمدردیا ں جتائی گئیں ان کے مطالبا ت کے سا منے سر تسلیم خم کیا گیا۔ عوام پھر غریب رہے ان

FEATURE
on May 29, 2021

جب اسلا م کا سو رج طلو ع ہو ا تو پو ری دنیا جہا لت میں ڈوبی ہو ئی تھی ۔ اور عرب کا وہ خطہ اور معا شرہ جہا ں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخر ی نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما یا خصوصاً ان توہما ت کا شکا رتھا جن میں لڑکیو ں کی پیدائش کو براسمجھنا اور ان کو زندہ درگور کر نا، عورتوں کے حقوق کو پا ما ل کر نا اور ان کو پا ؤں کی جو تی سمجھنا، غریب اورامیر کا طبقاتی فرق، چھو ٹی چھوٹی با توں پر دست و گریبا ں ہو جا ناچیدہ چیدہ ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی پا ک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوجہا ں رحمت العالمین بنا کر بھیجا وہیں ان کو اما م الانبیا ء اور خا تم المر سلین کے اوصا ف سے بھی سرفراز فرمایا ۔اسلام کی روشنی سے روشنا س ہو کر عرب کا وہ معاشرہ دنیا کا بہترین معاشرہ بن کر ابھر ا۔ اللہ تعالیٰ کی آخر ی کتا ب قرآن پا ک نے انسانیت کو امن ، محبت اور بھائی چا رے کا سبق دیا ، معاشرے میں طبقاتی بناپر برتری و ابتری کو ختم کیا، احترام انسانیت کا درس دیا اور عربی و عجمی اور گورے و کا لے کی فضیلت کو ختم کیا۔ حاکم کو پہلی دفعہ ایک عام آدمی کے سامنے جو اب دہ کیا ۔ عورت اور مر د کو برا بر کے حقوق دئیے ۔ تجا رت کے بہترین اصول مرتب کئے اور سلطنت کے اندررہنے والے ہر شہر ی کے حقوق و فرائض بیا ن کئے۔ درحقیقت دنیا کا آج کا ترقی یا فتہ معاشرہ اسلام کے مرتب کر دہ ان ہی سنہری اصولوں کو اپنا کر اپنے عروج کو پہنچا ۔ آج مغرب کا یہی ترقی یا فتہ معا شرہ اسی مذہب کے خلا ف منفی پراپیگنڈہ کر رہا ہے جس کے اصو لوں پر کاربند ہو کر وہ اپنی منزل مقصو د کو پہنچا ۔جب کہ اسلا م کے سا رے اصول ہر کسی کے سامنے عیا ں ہیں ۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے سچ فرما یا ہے کہ مسلما ن اور غیر مسلم دو الگ الگ قو میں ہیں ۔اگرچہ اسلام میں ہر مذہب کے ما ننے والے کے لئے آزادی ہے کہ ” لکم دینکم ولی دین ” ۔ لیکن مغربی ممالک ہمیشہ کی طر ح آج بھی اسلا م کے خلا ف سازشوں میں مصروف اور کئی منظم تحریکو ں کو کم و بیش ہر غیرمسلم حکو مت کی پشت پنا ہی حاصل ہے ۔9/11 کو ہو نے والے واقعے کی آڑ لے کر اس تحریک کو منظم و شدید کیا گیا ۔ جب کہ اکثر رپورٹس اور آرا کے مطابق اس واقعے کے متعلق امر یکی حکو مت کی تحقیقات مشکو ک و متعصبا نہ تھیں ۔یہ تعصب صرف امریکہ بہا در تک محدود نہیں بلکہ پور ا مغر ب اس کے سا تھ شا مل ہےاور اس تعصب کی وجہ وہ خوف ہے جو ان کے دلو ں میں پا یا جا تا ہے ۔ چو نکہ عیسائی اور یہو دی بھی اہل کتا ب ہیں تو لہذا ان کی کتا بوں میں بھی ایک ایسے سچے دین اور اللہ تعالیٰ کے آخر ی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گو ئی کی گئی ہے جو کہ سچا اور فلا ح پا نے والا ہے ۔ اور قیا مت سے پہلے غا لب آ کر رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لو گ اسلا م کے خلا ف صف آرا ہیں اور اسلا م کو ایک دہشت گرد مذہب گردانتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ہی اہل مغر ب اپنا پیسہ پا نی کی طر ح بہا رہےہیں ۔ ان کی تما م خفیہ ایجنسیاں جو ڑ توڑ میں مصروف ہیں اور ان کی خبر رساں ایجنسیاں ، اخبارات اور سوشل میڈیا چینلزاس مقصد کے لئے مصروف عمل ہیں اور بے پنا ہ خر چ کر رہے ہیں۔ امریکی وزارت دفا ع کو تو شا ید اس کے علا وہ کو ئی کا م نہیں کہ وہ اسلام کو ہی اپنا سب سے بڑ ادشمن ما نتے ہیں۔ امریکی خفیہ ادارے اپنے تما م تر وسائل بروئے کا ر لا کر مسلما ن ملکو ں میں مصروف عمل ہیں۔ اسے بدقسمتی کہیے یا مسلما ن حکمر انوں کی نا اہلی کہ تیل جیسی بیش قیمت دولت ہو نے کے باجو د اسلامی ملک اکثر غر یب ہیں اور ان کی اکثریت آبا دی فکر معاش میں مبتلا ہو کر کئی دوسر ے ملکوں میں دربدر کی ٹھو کریں کھا تی پھر تی ہے ۔ ایسے لو گوں کو خر یدنا بھی آسان ہو تا ہے سو یہی کا م اہل مغر ب کر رہے ہیں۔ غریب مسلما ن آبادی کو خر یدا جا رہا ہے ما ضی میں اس کی کئی مثا لیں افغانستان، پاکستان، عراق اور شام سے ملی ہیں۔ تلاش رزق نے ان مسلما نو ں کو دین کی چند بنیا دی عبادات کے علا وہ اس کی تفصیلا ت ، تعلیما ت اور اصو ل سیکھنے کا مو قعہ نہیں دیا اور جب انہیں کو ئی بھی اسلا می تعلیما ت کی چند با تیں بتا ئے وہ اسے عالم سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ یہ عالم دین کی خو دساختہ تشریح کر رہے ہیں ۔ ایسے عالم ہی ہیں جو خودکشی کو بھی جا ئز قرار دیتے ہیں اور ان علما ء کو غیر ملکی ایجنسیا ں اپنی مر ضی سے اپنے مقصد کے مطا بق استعما ل کر تی ہیں۔ صا ف سی با ت ہے کہ یہ سا زشیں صر ف اور صرف مسلما نو ں کی غر بت کی وجہ سے ہی کا میا ب ہو رہی ہیں۔ جو اسلامی ملک خو شحا ل ہیں ان میں بالکل بھی ایسا نہیں ہو رہا بلکہ صرف غر یب ملک پا کستان ، افغا نستان، عراق، شام اور سوڈان جیسے ملک ہی اس کا شکا ر ہو رہے ہیں۔ لیکن اسے امریکہ ، مغرب یا ہر غیرمسلم ملک کی بدقسمتی کہیے کہ اس کے باوجود کہ بظا ہر یہ ملک ان غریب ممالک میں