Skip to content

حضرت خضر علیہ السلام اور چشمہ آب حیات

کنزالایمان ترجمہ مع تفسیر خزائن العرفان میں صدرالافاضل مو لا نا سید محمد نعیم الدین صاحب مرادآبادی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت خضر علیہ السلام کا نا م بلیا بن ملکان اور کنیت ابوالعباس تحریر کی ہے ۔ ایک قول ہے کہ آپ بنی اسرائیل سے ہیں ایک قول ہے کہ آپ شہزادے ہیں آپ نے دنیا ترک کر کے زہد اختیا ر کیا۔

آپ ولی تو بالیقین ہیں آ پ کی نبوت میں اختلاف ہے ۔ آپ کے لقب خضر کی وجہ احادیث میں یہ بیا ن کی جا تی ہے کہ آپ جہا ں بیٹھتے یا نماز پڑھتے ہیں وہا ں اگر گھا س خشک ہو تو سبز ہو جا تی ہے ۔ آپ کا زمانہ ذوالقرنین بادشاہ کا زمانہ ہے ۔ ذالقرنین نے جن کا ذکر قرآن مجیدکی سو رۃ کہف میں ہے ۔ ذوالقرنین کا نام سکندرہے یہ حضرت خضر علیہ السلام کے خا لہ زاد بھائی ہیں۔ انہوں نے سکندریہ بنا یا اور اس کا نا م اپنے نام پر رکھا۔ حضرت خضرعلیہ السلام ان کے وزیر تھے ۔ دنیا میں ایسے چار بادشاہ ہو ئے ہیں جو تما م دنیا پر حکمران تھے۔ ان میں سے دو مو من تھے ایک حضرت ذوالقرنین اور دوسرے حضرت سلیمان علیہ السلام ۔ دو کا فر تھے ایک نمرود اور ایک بخت نصر اور ایک پانچویں جو اس امت میں سے ہو نے والے ہیں جن کا اسم مبا رک حضرت اما م مہدی علیہ السلام ہے اور ان کی حکو مت بھی تما م روئے زمین پر ہوگی ۔

ذوالقرنین کی نبوت میں اختلاف ہے ۔ مولا علی مشکل کشا  نے ان کے بارے میں فرما یا کہ وہ نبی نہ تھے نہ فرشتے تھے بلکہ اللہ سے محبت کر نے والےایک انسان تھےاللہ تعالیٰ نے ان انہیں اپنا محبوب بنا لیا تھا ، انسان کو جس چیز کی حاجت و ضرورت ہو تی ہے اور جو کچھ بادشا ہوں کو ممالک فتح کر نے اور سلطنت کو وسیع کرنے اور پھیلانے کا اشتیا ق ہو تا ہے وہ سب کچھ اللہ رب العزت نے انہیں عطا کیا تھا ذوالقرنین نے کتابوں میں دیکھا تھا کہ اولا د سام میں سے ایک شخص چشمہ حیا ت سے پا نی پئے گا اور اس کو مو ت نہ آئے گی ۔ یہ دیکھ کر وہ چشمہ حیات کی تلا ش میں مغر ب کی طر ف روانہ ہو ئے اور آپ کے سا تھ حضر ت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو چشمہ حیا ت تک پہنچ گئے اور انہوں نے پانی پی بھی لیا مگر ذوالقرنین کے مقدر میں نہ تھا ۔ انہوں نے نہ پیا ۔ اس سفر میں جا نب مغر ب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی تھی وہ سا را فا صلہ طے کر لیا اور وہا ں پہنچے جہا ں آبادی کا نا م ونشان بھی نہ تھا ۔ وہاں انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا گویا کہ وہ سیا ہ چشمے میں ڈوبتا ہے جیسا کہ سمندر میں سفر کر نے والوں کو ڈوبتا نظر آتا ہے ۔

قصص الانبیاء میں یہ واقع اس طر ح قلم بند ہے :۔

ذوالقرنین نے علما ء اور حکماء سے پو چھا کہ تم نے کسی کتا ب میں دیکھا ہے کہ کو ئی ایسا نسخہ جس کے استعما ل سے عمر اتنی لمبی ہو جا ئے کہ آدمی تصور بھی نہ کر سکے یا ایسا نسخہ جس کے استعما ل سے آدمی کو مو ت نہ آئے ان میں سے ایک حکیم نے عرض کیا کہ حضور میں نے ایک قدیم کتا ب ‘وصیت نا مہ آدم’ میں لکھا دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک چشمہ آب حیا ت کو ہ قاف میں پیدا کیا ہے ۔ اس کا پانی دودھ سے زیا دہ سفید اور برف سے زیا دہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا ، مکھن سے نرم اور مشک سے زیا دہ خوشبودار ہے ۔ جو اس کو پئے گا اس کو مو ت نہ آئے گی اور قیامت تک زندہ رہے گا۔ اس پانی کا نا م آب حیا ت ہے یہ سن کر ذوالقرنین کے شو ق میں اضا فہ ہوا ۔ انہوں نے علماء سے کہا کہ آ پ بھی ہمارے سا تھ چلیں اور پوچھا ذرا یہ تو بتا ئیں کہ سواری کے لئے سب سے اچھا چست و چا لا ک جا نور کو ن سا ہو تا ہے ۔ وہ بولے ایسی اچھی نسل کی گھوڑی جس نے بچہ نہ جنا ہو۔ چنانچہ ذوالقرنین نے ایک ہزار گھوڑیا ں منگوائیں اور حضرت خضر علیہ السلا م کو سب سے آگے کیا یعنی رہبر بنا یا ۔

پھرعلما ء و حکما ء سے پو چھا کہ وہ وہاں پہنچنے کے بعد اگر اس جگہ جیسا کہ علما ء نے بتا یا تھا اندھیر ا ہو اتو کیا کر یں گے ۔ حکما ء اور علما ء نے کہا کہ ایسا کریں کہ شا ہی خزانے سے لعل و گوہر لے لیں اگر اندھیرا ہوا تو اس کی روشنی میں آگے بڑھیں گے۔ غرض ایک قیمتی لعل جو اندھیرے میں روشن ہو جا تا تھا ، لیا گیا اور حضرت خضر علیہ السلام کے حوالے کیا ۔ تخت و تا ج اور سلطنت ملا زموں میں سے ایک عقلمند اور دانا ملا زم کو سپرد کر کے با رہ سال کے وعدے پر اس سے رخصت ہو ئے ۔ جب کو ہ قاف پہنچے تو راستہ بھو ل کر اس جگہ ایک سال تک پریشان و سرگرداں رہے اور اسی اثنا ء میں حضرت خضرعلیہ السلام لشکر سے جدا ہو کر اندھیرے علا قے میں جہا ں سورج کی روشنی بھی نہیں پہنچتی تھی بھٹک گئے ۔ پھر خیا ل آیا تواس لعل کو جیب سے نکال کر زمین پر رکھ دیا اس کی روشنی سےاندھیر دور ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کی کر م نوازی سے چشمہ آب حیا ت کا ان کو نظر آ گیا۔ حضر ت خضر علیہ السلا م نے وضو کر کے آب حیا ت پی لیا اور خدا کا شکر بجا لا ئے ۔ چنا نچہ حضر ت خضر علیہ السلا م کی عمر دراز ہو ئی پھر وہا ں سے نکل کر آئے تو ایک اور اندھیر ی جگہ آئی تو دوبارہ اس لعل کو زمین پر رکھا جس سے اندھیر ا دور ہو گیا جو لشکر کے لو گ اندھیرے میں تھے تما م حضر ت خضر علیہ السلام کے پا س جمع ہو گئے ۔ اس سفر میں نا کا می کے بعد ذوالقر نین نے تما م لشکر کو اپنے پا س سے رخصت کیا ۔ ذوالقرنین وہیں رہ گئے اور عبا د ت میں مشغول ہو گئے۔ چند دنو ں کے بعد انتقال کیا اور وہیں مدفون ہوئے۔

اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ حضر ت خضر علیہ السلام کو ہمیشہ کی زندگی عطا ہو گئی تھی وہ اس کے بعد ہمیشہ زندہ رہیں گے یعنی قیا مت تک۔ لیکن تاریخ یا احا دیث میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا جس سے یہ ثا بت ہو کہ آ پ کے سا تھ ذوالقرنین کے بعد سے حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے واقعے تک (جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے ) کیا بیتی یا آ پ کیا کر تے رہے ۔ جیسا کہ مشہو ر ہے کہ آ پ بھٹکے ہو ئے لو گو ں کی رہنما ئی کا فریضہ انجا م دیتے ہیں اور پر یشان حالو ں کی مد د کر تے ہیں ۔ البتہ مو سی ٰ علیہ السلام کو نبوت عطا ہو نے اور فرعون کے غر ق ہو نے کے بعد حضرت خضر علیہ السلام کا حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو تعلیم دینے کے لئے حکم خداوندی ہو نے کا واقعہ قرآن مجید میں تفصیل سے مذکو ر ہے ۔ جس کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کئی احا دیث میں بڑی تفصیل سے بیا ن ہو ئی ہے ۔

قصص الانبیاء اور تفسیر خزائن العرفان اور بخا ری شریف و مسلم شر یف میں مختصر و مفصل کئی جگہ یہ واقعہ مو جو دہے ۔ اور اسی واقعہ کو حضرت خضرعلیہ السلام کے نبی ہو نے کی ایک بڑی دلیل سمجھا جا تا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرما یا کہ ہما ر ا ایک بندہ تم سے زیا دہ عا لم ہے اور ظاہر ہے جو شخص خو د نبی نہ ہو وہ ایسے مقرب نبی سے زیادہ عالم کیسے ہو سکتا ہے ۔حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے حضرت خضر علیہ السلام کو تلا ش کر کے پا لینے کے بیا ن میں اللہ تعالیٰ نے فرما یا کہ “اور مو سیٰ اور یو شع نے ہما رے ایک ایسے خا ص بندے کو پا یا جس کو ہم نے اپنی طر ف سے رحمت اور خا ص علم عطا فر ما یا تھا ” اور مخصو ص اور منجا نب اللہ پو ری طرح سے اسی علم کو کہہ سکتے ہیں جو اعلیٰ یقین طر یقے سے یعنی بذریعہ وحی انبیا ء علیہ السلام کو عطا کیا گیا ہو ۔

1 thought on “حضرت خضر علیہ السلام اور چشمہ آب حیات”

  1. بہت سے علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ ذولقرنین ایرانی بادشاہ سائرس اعظم تھا جو کہ زرتشت کا پیروکار کار تھا ۔جبکہ آپ نے سکندر کا ذکر کیا ہے جس نے اسکندریہ شہر بسایا تو وہ یونانی بادشاہ سکندر اعظم تھا جو
    کہ کافر تھا اور آپ سکندر کو مومن بادشاہ میں شمار کررہے ہیں
    جہاں تک آب حیات کی بات ہے تو ذولقرنین نے اگر حضرت خضر علیہ السلام کو اب حیات کی تلاش میں رہبر مقرر کیا تھا تو کیا یہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ کا ایک نیک پرہیزگار اور عبادت گزار بندہ امانت میں خیانت کرسکتا ہے ۔ تو پھر حضرت خضر علیہ السلام کیسے اس اب حیات کو پی سکتے ہیں ۔ کیا یہ ممکن ہے ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *