میر ا پیا ر اوطن پا کستان اس وقت کئی مختلف مسائل اورمشکلا ت میں گھر ا ہواہے ۔اس کو غربت ، بےروزگاری ، مہنگائی، دہشت گردی اور تعلیم کے فقدان جیسے کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ اسکے علاوہ روز بہ روز بڑھتا ہوا بیرونی قرضہ ایک ایسا نا سور ہے جو کم یا ختم ہونے میں نہیں آرہا بلکہ ہماری حکومت تو اس قرض کے اوپر جو سود دینا ہے اس کی اقساط بھی دینے سے قاصر نظر آتی ہے ۔
ہما را دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہما رے مو جودہ وزیراعظم عمر ان خان صا حب نے دین اسلام کو اپنا تے ہو ئے پاکستان کو ریا ست مدینہ بنا نے کا دعویٰ بھی کیا تھا اور ابھی تک اکثر و بیشتر وہ اپنی تقاریر میں یہ بات دہراتے ہو ئے نظرآتے ہیں کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنا کر رہیں گے۔ لیکن ان کے اس دعوے کی کو ئی معمو لی سی جھلک بھی کہیں پر نظر نہیں آتی ۔ کیونکہ ریاست مدینہ یا کسی اسلامی ریاست میں صاحب استطاعت لو گوں پر اڑھا ئی فیصد کی شرح سے زکوٰۃ واجب تھی اور اسی سے تما م حکو متی امو ر کو چلا یا جا تا تھا اوراسی زکوٰۃ سے ہی بیت الما ل اور کئی دوسرے فلاحی اداروں سےیتیم، مسکین اور نادار لو گوں کی مدد کی جا تی تھی اور سرکاری اداروں کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی بڑی خوش اصلو بی سے ہوجا تی تھی۔ ہمار ی عوام جو کہ زکوٰۃ دینے سے دل چراتی ہے وہی عوام کئی قسم کے ٹیکس (بلواسطہ یا بلا واسطہ ) بڑی خوشی سے دے رہی ہے جس کی شرح زکوٰۃ سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ہروقت ہماراحکمران طبقہ اسی بات کا رونا رو رہا ہے کہ ہمار ے پاس کوئی وسا ئل نہیں ہیں اورہماری معاشی حالت اتنی مخدوش ہے کہ کوئی سرما یہ کاری کرنے کوتیا رنہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے حکمر ان کام ہی اپنے وسائل سے بڑھ کر کر تے ہیں بہت ساری غیر ضروری وزارتوں اور اخراجا ت کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ۔حکو مت کو چا ہیے کہ اپنے اخراجات اور آمدنی کا توازن برقراررکھے تاکہ ملکی معاملا ت چلا نے کے لئے کسی قسم کے بیرونی قرضے کی ضرورت ہی نہ پڑے – ہم بڑے دعوے سے خود کو مسلما ن کہتے ہیں یہ اوربات ہے کہ ہم نے خود کو ان تما م خوبیوں سے دور رکھا ہوا ہے جو مسلما نوں کا خا صہ تھیں ہم میں نہ تو صدق و صف با قی ہے اورنہ فقروغنا ۔ نہ کو ئی ابوذر ہے نہ عثمان غنی اور نہ ہی ہما رے حکمر ان عمر فاروق یاعلی جیسے ہیں ۔ یہ وہ لو گ تھے جن کا دامن صا ف تھااور دوسروں کی پکڑ کر سکتے تھے اور خود کو ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے۔ بس یہی وجہ تھی کہ خوف خدا انہیں ہر غلط کام سے روک دیتا تھا۔ یہ عوام کو اپنا محتسب سمجھتے تھے اور خود کو ان کا خا دم۔ آج ہما ری یہ قدریں غیروں نے اپنا لی ہیں جب کہ ہم حرص، طمع اور ہل من مزید کے بندے بن کر رہ گئے ہیں ۔دوسرے ممالک خصوصاً غیر مسلموں سے قرض ما نگنا ہم نے اپنی عادت بنا لی ہے ۔ مانگی ہوئی جنت سے دوزخ کا عذاب اچھا کی بات تو درکنا ر ہم میں فردوس بریں پیداکرنے کی ہمت ہی ختم ہو گئی ہے ۔ حکومتی سطح پر بھی ہم نے ما نگ کر ادھا ر لے کر کا م چلا نے کی روش اپنا ئی ہو ئی ہے ۔ ہما رے بے حس حکمر انو ں نے کبھی اس قوم میں خودداری اور خودی پیداکر نے کی کو شش ہی نہیں کی۔ انہوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد کو قومی مفا د پر مقدم سمجھا ۔ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ حا صل کر نے کو بھی اپنی بہت بڑی کا میا بی گردانتے ہیں ۔ ورنہ ایسا نہیں ہے کہ اس قوم کے افرادی قوت یا قدرتی وسا ئل کی کمی رہی ہو۔ اس ملک کی زمین میں قدرت کی طر ف سے عنا ئت کردہ پو شیدہ خزا نے ان بائیس کروڑ انسانوں کے چوالیس کروڑ ہا تھو ں کے منتظر ہیں ۔ ضرورت صرف ان ہا تھوں کو کا م میں لا نے والے ذہنوں کی ہے اور بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہما رے ملک میں حکمر ان طبقہ اس کو اپنی ذمہ داریو ں میں شما ر نہیں کر تا۔ ایسے لگتا ہے.
جیسے ملک کو عارضی بنیا دوں پر چلا یا جا رہا ہو ۔ قرض پر قرض لئے جا ر رہے ہیں اور پا کستان کا ہر شہری اس وقت ایک محتاط اندا زے کے مطا بق اتنی رقم کا مقروض ہے جتنی رقم (170000)شا ئد اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی ۔ بیر ونی قرضوں میں کمی ہو نے کی بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ اس سال بھی ان بیرونی قرضوں میں 40فیصد اضا فہ ہوا ہے ۔ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اسے کہیں پر بھی ترقیاتی کا مو ں پرخر چ نہیں کیا گیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سب طبقہ خواص میں خر چ ہو رہا ہے اور امیر امیر تر ہو تا جا رہا ہے ۔اس طبقے کو اس سے کو ئی فر ق نہیں پڑتا کہ آٹا سا ڑھے پا نچ سو روپے فی بیس کلو بڑھ کر ہزاریا گیا رہ سو تک کیسے پہنچا۔ کیا اس سے بڑے زمینداروں کے علا وہ بھی کسی کو فا ئد ہ ہواخاص کر وہ لوگ جو اکثریت میں ہیں اور آٹا خر ید کر کھاتے ہیں ۔ وہ کس حا ل میں ہیں کیا ان کی بہتری کے لئے بھی کوئی منصو بہ شر وع کیا گیا ۔ کچھ دن پہلے غریب عوام کے سروں پر چینی کا بم پھوڑا گیا شوگرملز مالکا ن کے سا تھ ہمدردیا ں جتائی گئیں ان کے مطالبا ت کے سا منے سر تسلیم خم کیا گیا۔ عوام پھر غریب رہے ان کی کمر توڑنے کے لئے ایک اور درجہ کا اضا فہ ہوااور طبقہ امراء پھر فا ئدے میں رہا۔ اس سا رے مسئلے کے لئے تجویز ہوا کہ جس طرح گندم درآمد کی ہے اسی طر ح چینی بھی درآمد کی جا ئےگی ۔ حالانکہ ہم تو گندم اور چینی کی پیداوارمیں پوری دنیا میں تیسرے یا چو تھے نمبر پر تھے پھر بھی ہم یہ چیزیں بھی درآمد کر یں گے۔ ان ذرعی اجنا س کو درآمدات میں ڈالنے سے یہ ضرور ہوا کہ ہمیں قرض دینے والے سا ہو کاروں میں اضا فہ ہوا۔
قصور ان کا نہیں قصور تو ہما ر ا ہے ہما ری حکو مت کا ہے کہ جو قرض کی پیتے ہیں مئے اور جی میں کہتے ہیں کہ ہا ں رنگ لا ئے گی ہمار ی فا قہ مستی ایک دن ۔ ہم نے چادر دیکھ کر پا ؤں پھیلا نے کے اصول کواپنی زندگی سے خا رج کر دیا ہے -ایک اور دل جلا دینے والی بات جو کہ ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلا ں فلا ں ملک سے برابر ی کی بنیا د پر تجا رت ہو گی یا ہما رے تعلقات بر ابری کی بنیا د پر ہو ں گے جب کہ ہم سب جا نتے ہیں کہ ہم ان ملکو ں کے اربوں روپے کے قرض دار ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ان سے برابری کی بنیا د پر تعلقات استوار کر سکیں اور تو اور یہ بھی کہا جا تا ہے کہ آئی ایم ایف سے اپنی شرائط پر قرضہ حا صل کیا گیاا ب جب ان “اپنی شرائط ” کی تفصیل بیا ن کی جا تی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے یعنی کہ ہمارے کر تا دھرتا اپنے عوام پر بے تحا شہ ٹیکس لا گو کر نا ، بجلی ، پیٹر ول، آٹا ، چینی اور دیگر اشیا ئے ضروریہ حتیٰ کہ کھانے پینے پر بھی ٹیکس لگا دینا اور اتنا لگا دینا کہ عوام بھو ک کے ما رے بلبلا اٹھیں ، گرمی سے چیخیں ما ریں کیا یہ سب ہما ری “اپنی شر ائط “ہیں۔
ہمارے حکمر ان تو اس بات پر مصر ہیں کہ قرض ہماری حا لت بدل دے گا اور ہمار ی قومی ترقی میں کوئی اضا فہ ہو گایہ کوئی اچھی سوچ نہیں بلکہ حما قت ہے ۔ قوموں کی حالت قرض سے نہیں بدلتی بلکہ محنت ، خلوص اور سچی لگن سے بدلتی ہے اس کے لئے اپنی خواہشات کی قربانی دینی پڑتی ہے ۔ ذاتی مفا د کو با لا ئے طاق رکھ کر قومی مفا د کے لئے جان لڑائی جا تی ہے تب کہیں جا کر گو ہر مقصو د ہا تھ آتا ہے ۔میں نے کئی بار سو چا ہے کہ کیا اس ملک میں محب وطن لو گوں کی کمی ہے ؟ نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ مسئلہ صرف یہ ہے کہ یہ محبت کر نے والے قدرت نہیں رکھتے یہ تو قرض لے کر کھانے سے بھو کا سونے کو تر جیح دیتے ہیں ۔ لشکر امیر ہمیشہ لشکر کے پیچھے چلتا ہے تو کیا یہ ہماری حکو متوں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ خود سے اس کار خیر کی ابتداکریں ۔ کفائت شعا ری کو اپنا ئیں ، قوم میں سنجیدگی ، محنت اور بچت کی عادات کا پرچا ر کریں ۔ سہولت عوام کا حق ہے لیکن اگر اس کے لئے اپنے ذرائع استعما ل کئے جا ئیں اور انتہائی ایما نداری اور خوف خدا کو دل میں رکھ کر استعما ل کئے جا ئیں تو یقیناً ہمارے قرضوں میں کمی ہو گی ۔ لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ کیا ہما ری کوئی حکو مت قرض لینے کے نقصانا ت پر غو ر کر ے گی یا ہمیشہ سود ہی ادا کر تی رہے گی ۔ اصل زر تک تو بات بہت بعد میں پہنچے گی اور لگتا یہی ہے کہ جس طر ح میری نسل نے ساری زندگی قرض ادا کر تے کر تے گزارنی ہے.
اسی طر ح میر ی آئندہ نسل بھی (خدانخواستہ) اس مسئلے کا شکا ر رہے گی۔ جب کہ اس کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیو نکہ للہ تعالیٰ نے جتنے قدرتی وسا ئل پاکستان کے اس چھوٹے سے خطے میں رکھے ہیں اتنے شائدہی کسی ایک ملک کے پاس ہو ں گے۔ ان چیدہ چیدہ وسائل میں اربوں ڈالر کے تیل، گیس ، سونے ، کاپر اور کوئلے کے بے تحا شہ ذخائر موجود ہیں جن سے ہم اپنے سا تھ ساتھ دوسروں کی ضروریا ت بھی پوری کر سکتے ہیں ۔ لیکن یہ سب کچھ ہو نے کے باوجود ہم یہ سب چیزیں باہر سے منگواتے ہیں۔ شا ید یہ ہو کہ ہمار ے مو جودہ حکمر انوں نے یہ سب کچھ اپنی آنے والی نسلو ں کے لئے سنبھال کر رکھے ہوں ۔ جس طر ح ہمار ے کچھ پا کستانیوں کے تقریبا ً دوسو پچا س ارب ڈالر باہر کے بینکو ں میں پڑ ے ہیں جن میں سے ہم اپنے سو یا ایک سو بیس ارب ڈالر کے قرضے بڑی سہولت سے دے سکتے ہیں اور یو ں دراصل ہم ملک کو ترقی کی شا ہر اہ پر بہت آگے لے جا کر اس پا ک سر زمین سے جر ائم و بے چینی کا خا تمہ بھی کر سکتے ہیں ۔ ہا تھ بہت ہیں ذہن بھی بے شما ر ہیں لیکن تلا ش اور ضرورت ان ضمیروں اور کرداروں کی ہے جو خو د کو عوام اور خدا کے سامنے جوابدہ سمجھیں بالکل اسی طر ح جس طر ح دریا ئے فرات کے کنا رے پیا س سے مر نے والے کتے تک کی مو ت کے لئے بہت بڑی سلطنت (ریا ست مدینہ)کےما لک اور حاکم وقت حضر ت عمر جوابدہ تھے۔