Skip to content

تنہا چاند

ادب میں چاند کے زکر کی رواءت خاصی پرانی ہے۔شعر و شاعری نے تو گویا چاند ہی کو چار چاند لگا دیا ہے۔ محبوب کے ُحسن کا خاکہ کھینچنا مقصود ہو یا پھر انسانی عزم کی بلندیوں کو ظاہر کرنا ہو، چاند ہمشہ سے ہی قلم کاروں کی تحریروں کو جگمگاتا رہا ہے۔ کیا ہم نے یہ کبھی سو چا ہے کہ جس چاند کو استعارہ بنا کر ادیب اپنی تنصیفات کو دلکش بنا تے ہیں، وہ چاند کتنا تنہا ہو گا۔ تنہا چاند کی ویرانی کو ُاردو کی مشہور شاعرہ پروین شاکر نے خوب بیان کیا ہے:

اتنے گھنے بادل کے پیچے کتنا تنہا ہوگا چاندشاید تنہا چاند کے ُدکھ کو ناسا نے محسوس کر لیا ہے۔ ناسا ایک امریکی خلاءی تحقیقاتی ادارہ ہے۔ ناسا نے ۲۰۲۴میں کسی خاتون خلا باز کو پہلی دفعہ چاند کی سطح پر اتارنے کا منصوبہ بنا یا ہے۔ ایک جاپانی خلا بازی کی کمپینی بھی سیاحوں کو چاند کی سیر کروانے کا اردہ رکھتی ہے۔پہلے چاند ادب میں ُاترا اور اب عام انسان چاند پر ُاترنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایک امریکی شاعر رابرٹ فروسٹ نے لکھا تھا: ہم ایسے دوڑے۔۔۔۔جیسے چاند سے جا ملنا ہو۔ چاند سے جا ملنا اب زیادہ دور نہیں ہے۔ لیکن ایک سوال جو ذہن میں آتا ہے کہ جب مستقبل میں چاند کی سیر عام لوگوں کی پہنچ میں آجاءے گی تو کیا یہ وہی چاند ہو گا جو ادب کی دنیا میں عیاں ہو تا ہے؟۔ حسین و جمیل، نکھرا نکھرا، روشن روشن یا پھر مٹی ، پتھر، گڑھے اور سیاہ سمندر میں لیپٹا ہوا؟۔

کیا ایسا چاند دیکھ کر شوقین لوگوں کو مایوسی نہیں ہوگی؟۔ ہمیں یہاں شیخ حاتم کا ایک شعر یا د آرہا ہے: چاند سے تجھ کو جو دے نسبت سو بے انصاف ہےچاند کے منہ پر ہیں چھاءیں تیرا مکحڑا صاف ہےہمارے نزدیک یہ سوال بے معنی ہے کہ تنہا چاند سیاحوں کو کتنا بھلا لگے گا۔ قابل ستاءش امر یہ ہے کہ انسان نے خدا کی عطا کردہ ذہانت کو استعمال کر کے چاند کو دنیا کے لیےقابل دید بنا دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *