اپنے خیالات کو الفاظ اور جملے دے کر ایک انسان سے دوسرے انسان تک بات کرنے کا نام زبان ہے زبان ہر قوم کی پہچان اور اس قوم کا فخر ہوتی ہے تب تک جب تک آپ خود اس کو بولنے میں فخر محسوس کریں کم و بیش ہر ترقی یافتہ ملک کے پیچھے اس کی زبان کا عمل دخل رہا ہے مگر ہم برصغیر خصوصا پاک و ہند کے رہنے والے اپنی زبان کو سب سے کم تر محسوس کرتے ہیں اور اسی سے کم تر محسوس کروا رہے ہیں
جبکہ ہر ایک معزز انسان کو اپنی مادری زبان سے عشق ہونا چاہیے جیسے ہمارے شاعر مشرق علامہ اقبال قابلیت کے لحاظ سے وہ انگریزوں کو بھی مار دے سکتے تھے مگر انہوں نے اپنی مادری زبان کو فوقیت دیتے ہوئے اپنا ہر مضمون نظم و شاعری اردو میں کہیں اور لکھیں وہ چاہتے تو انگریزی میں بھی لاکھوں کتابیں لکھ دیتے مگر انہوں نے اردو کو فوقیت دی جو آج کے دور میں بولنے والے کو شرم ناگ زبان محسوس کرائی جاتی ہےاور انگریزی کو علم و دانش کا نشان جبکہ ہر انگریزی بولنے والا پڑھا لکھا ہونا لازم نہیں ہے زبان تعلیم سے نہیں ماحول سے سیکھی جاتی ہے بچہ جو سنتا ہے وہی اس کی زبان دہراتی ہے
اب بات صرف اتنی ہے کہ ہم اپنی زبان کو حقیرنہ سمجھتے ہوئے اسے فخر سے بولے تو ہماری زبان بھی دنیا میں کسی زبان سے پیچھے نہ رہے جاپان میں جاپانی عرب میں عربی جرمنی میں جرمن یہ وہ زبانیں ہیں جو اس قوم کے لوگ بڑے فخر سے بولتے ہیں اور ان کے ہاں ابھی بھی انگریزی صرف قابل ضرورت زبان ہے جبکہ ہمارے ہاں انگریزی علامت علم ہے
اگر ہم اپنی زبان کو عزت دیں تو یہ میٹھی زبان دنیا کی بہترین زبان ہے اسی لیے میرا یہ عزم ہے کہ اردو بولو اس کو پھیلاؤ اور دوسری زبانوں کو ضرورت پڑنے پر استعمال کرو میرا تو اپنی زبان اردو کو سلام ہے اور میں اردو بولنا لکھنا اپنا فخر سمجھتی ہوں اور دوسری زبانوں کو بوقت ضرورت استعمال کرتی ہوں اگر آپ کو یہ بات اچھی لگی ہے تو بتائیے گا شکریہ