شاہد احمد دہلی 1906 کو پیدا ہوئے .مولوی نذیر احمد کے پوتے اور مولوی بشیر الدین کے بیٹے تھے ۔انہوں نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد سے حاصل کی ۔دہلی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کیا ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد ماہنامہ ،،ساقی،، جاری کیااور اسی نام سے ایک بک ڈیپو بھی قائم کیا ۔اس رسالے نے بے شمار نئے لکھنے والوں کو متعارف کرایااور ان کی حوصلہ افزائی کی ۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے آئے اور کراچی سے اپنا رسالہ جاری کیا۔وہ ادبی تحریکوں اور انجمنوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔انہوں نے انجمن ادبی جرائد پاکستان، بنائی۔شاعروں ادیبوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ،،رائٹرزگلڈ، ،کے ضمن میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔انہیں موسیقی سے بھی بہت دلچسپی تھی ۔وہ ریڈیو پاکستان کراچی میں بحیثیت میوزک سپروائزر مقرر ہوئے ۔اس سلسلے میں انہوں نے جاپان، تھائی لینڈ، فلپائن اور ہانگ کانگ کی دورے بھی کیے، جہاں انہوں نے پاکستانی موسیقی پر لیکچر دیے۔
شاہد احمد دہلوی ایک ذی علم آدمی تھے ۔وہ دراصل نذیر احمد اور بشیر الدین کی روایات کی امین رہے ہیں۔انہیں دہلی کی ٹکسالی زبان بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ ان کی تصانیف کی تعداد پچاس کے قریب ہے ۔ان کے بعض مقالات نے ،،دہلی محروم،، کو زندہ جاوید کر دیا۔اپنے رسالے کے بعض خصوصی شماروں کے ذریعے اردو ادب کی ترویج میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ان کی مشہور تصانیف میں دلی کی بپتا ،گنجینہ گوہر ،سرگزشت عروس ، اندھی گلی ، دھان کا گیت اور پاکستانی موسیقی شامل ہیں ان کی وفات کراچی میں 1967 کو ہوئی اور وہیں دفن ہوئے ۔