جب مشتعل جذبات کو اظہار کا جائز موقع میسر آ جائے تو انسان چور دروازوں سے ناجائز مواقع تلاش نہیں کرتا لیکن اگر جائز طریقے پر قانونی پابندیاں عائد کر دی جائیں یا رسم و رواج میں ڈال کر مشکلات پیدا کر دی جائیں تو ناجائز راستوں کو تلاش کیا جاتا ہے. شرعا بچے کا 12 سال اور بچی کا 9 سال کی عمر میں بالغ ہونا ممکن ہے اور اگر 12 سے 15 سال کے درمیان بلوغت کی کوئی علامر ظاہر نہ ہو تو 15 سال کی عمر میں انہیں بالغ شمار کیا جاتا ہے لیکن قانونی طور پر 18 سال کی عمر سے پہلے مرد کا اور 16 سال کی عمر سے پہلے عورت کا نکاح رجسٹرد کرنے کی اجازت نہیں.
تا ہم عملی صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں غالب اکثریت کی شادیوں میں بہت ناروا تاخیر دیکھنے میں آتی ہے. مرد کی شادیاں تیس سے پینتیس سال کی عمر میں انجام پا رہی ہیں. یہ تاخیر معاشرے کے لئے قطعی طور پر سود مند نہیں ہے. زیادہ عرصہ بن بیاہے رہنے کے خطرناک نتائج سامنے آ رہے ہیں وجوہات :اکثر لوگوں کے اذہان میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ اپنی بیٹی کی شادی اس مرد سے کرنی ہے جو دولت مند ہو اور اپنے بیٹے کی شادی اس عورت سے کرنی ہے جس کے والدین کے پاس اپنی بیٹی کو جہیز میں دینے کے لیے کثیر مال ہو۔یہ نظریات اکثر شادی میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔جب تک لڑکا بر سرروزگار نہیں ہوتا تب تک اسے کوئی رشتہ دینے کے لیےتیارنہیں ہوتا اور اسی طرح جب تک جہیز تیار نہیں ہوتا لڑکی کی شادی نہیں ہو تی خواہ جہیز کا سونا چاندی تیار ہوتے ہوتے اس کے بالوں میں چاندی اتر آئے۔یہ تمام امور شادیوں میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں
عورت کےمعاملات حیات کی وجہ سے بعض اوقات مرد اپنی حاجات کی تسکین کے لئے ایک سے زائد عورتوں سے نکاح کی حاجت محسوس کرتے ہیں لیکن کچھ قانونی تقاضے اور عوامی اور سماجی رویے اس کی خواہش کی تکمیل میں رکاوٹ بن جاتے ہیں. 1961ء کے ‘مسلم عائلی قوانین ‘ کے آڈڈنینس کے نتیجے میں ہونے والی قانون سازی نے دوسری شادی کرکرنے کیلئے کچھ قانونی رکاوٹرکاوٹوں کو جنم دیا ہے نیز ہماراسماج دوسری شادی کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔چناچہ جب ان رکاوٹرکاوٹوں اور رویوں کی وجہ سے اس کی ضرورت جائز طریقہ سے پوری نہیں ھوتی تو وہ ناجائز ذرائع کی طرف متوجہ ہوتا ہےاللہ پاک ہم کو یہ سب باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے