معاف کردینا ایک بہترین عمل ہے ۔ ۔ ۔ کتنے ہی دِل ٹوٹنے سے ، کتنے ہی رشتے ختم ہونے سے بچ جاتے ہیں۔
جب ہم اللّٰہ کی رضا کے لیے کسی کو معاف کرتے ہیں تو ہمیں وہ سکون عطا کیا جاتا ہے جو بڑی سے بڑی عبادتوں میں بھی نہیں ملتا. . . بڑی سے بڑی خوشیوں اور نعمتوں سے بھی وہ سکون نہیں ملتا جو کسی کو بے لوث معافی دے دینے پر ملتا ہے۔
پر معافی میں خُلوص شرط ہے۔ معاف کریں تو دل سے کریں ، معاف کردیں تو پھر گلے سے لگالیں ۔ کسی کو معافی کی صورت میں ایسا بوجھ نہ دیں کہ معافی لینے والا ہر دَم ملال میں گھُٹتا رہے ، نادم رہے ، پَل پَل اُسے شرمندگی مارتی رہے۔ ایسا ہر گز نہ کریں۔ جب معاف کریں تو ایسا کریں کہ سامنے کھڑا شخص قرار میں آجاۓ، اس کے دل کا بوجھ اُتر جاۓ، اُسے سکون مل جاۓ۔ ایک بار نہیں ، دو بار نہیں ، ، سَو بار بھی کوٸ خلوص سے اور صدق ِ دل سے اپنے گناہوں کی، اپنی خطاٶں کی تلافی کرنا چاہے تو سَو بار بھی اسے معاف کردیں۔
آج کے دور میں تلخیوں کی سب سے بڑی وجہ ہمارا دلوں میں ایک دوسرے کے لیے بغض و عداوت رکھنا ہے ۔ کسی کی زبان سے بے دھیانی میں نکلے ہوۓ الفاظ اکثر ہم پر گِراں گزرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم ان کو اپنے دل پہ بھی لگا لیتے ہیں۔۔ یہ نہ سمجھتے ہوۓ کہ یہ ہماری سمجھنے کی غلطی بھی ہوسکتی ہے۔۔
ہمارے دل میں بسی ہوٸ لوگوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں اکثر بڑی بڑی عداوتوں اور بغض کو جنم دے رہی ہوتی ہیں۔۔ عدم برداشت اور معافی کا جذبہ نہ ہونے کی وجہ سے انسان اپنے ذاتی سکون کی بربادی کا سبب تو بنتا ہی ہے مگر ساتھ ساتھ دوسروں کو بے سبب تکليف دینے کی بھی وجہ بنتا ہے۔ کسی کو معاف نہ کرنے کی انا ، انسان کے نفسياتی حملوں میں سے سب سے بڑا حملہ ہے۔۔
ہمارے پیارے نبی حضور ِ اکرم رحمت ِ دو عالم حضرت محمد ﷺ نے بغض و عداوت کی نفی کرتے ہوۓ ہمیشہ عفو و درگزر اور معافی کا سبق تمام عالمِ انسانيت کو سکھایا۔۔ نہ صرف تعلیمات سے تاٸید کی بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں درگزر اور معافی کو اپنا شیوا بناۓ رکھا۔ تا کہ یہ کاٸنات ، عالم ِاسلام اور معاشرے کا حسن بن جاۓ۔ بے شک معاف کردینا ہمارے پیارے آقا ﷺ کی اعلیٰ ترین اداٶں میں سے ایک ہے۔