زندگی اللہ تعالی کا ایک انمول تحفہ ہے۔کائنات کا وجود زندگی کا مرہون منت ہے۔ آدم سے لے کر آج تک کوئی بھی روح زندگی کے بارے میں قطعی اور حتمی فیصلہ نہ کر سکاکسی نے زندگی کو عیش و نشاط سمجھاتو کوئی زندگی کو حسین خوابوں خیال کرتاہےاگرچہ زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہےلیکن یہ جدوجہد مسلسل ہی ہمیں تو زندگی کی معنی سمجھاتا ہےکسی کے نزدیک زندگی غموں کا دریا ہےتو کسی کے لیے بے پہچان کھیل۔ درحقیقت زندگی خوشیوں اور غموں کا ایک مجموعہ ہے
زندگی کو ضرورت کی طرح گزارو خواہش کی طرح نہیں کیونکہ ضرورت فقیر کی بھی پوری ہوتی ہے
لیکن خواہش بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہوتی آجکل خواہشات کی بڑھتی ہوئی فہرست کی وجہ سے ٹی وی پر روزانہ خودکشی کے کئی واقعات سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں زندگی کی بعض کٹن را ہیں انسانوں کے حوصلے پست کر دیتی ہے تو وہ اس سے فرار حاصل کرنے لگتے ہیں اس میں قصور زندگی کا نہیں بلکہ ان کے اپنے حوصلے کی ناپختگی کا ہے لوگوں میں ناامیدی مایوسی اور اداسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو قبول نہیں کر پاتے اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتےہیں اور خود کشی کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیںں خودکشی کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے ہم چھوٹی سی چھوٹی ناکامی پر زندگی سے شکایت کرنے لگتے ہیں والدین اور اساتذہ کی ڈانٹ برداشت نہیں کرتے امتحان میں ناکامی یا پسند کی شادی نہ ہونے پر زندگی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں خودکشی کےروجحان میں اضافے کے پیچھے ایک اور بڑی وجہ مذہب سے دوری ہے اسلام میں “خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے”لیکن ہمارے ہاں جیسے اور دوسرے احکامات کی پابندی نہیں کی جاتی ویسے ہی خودکشی کے اس حکم کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں ماہرین نفسیات کمزور قوت ارادہ رکھنے والے لوگوں کے بارے میں ان کے خاندان والوں کو ہدایت دیتے ہیں کہ وہ مایوسی یا ڈپریشن کے شکار افراد کی دلجوئی کرے ایسے افراد کو سہارا دیا جائے تو ان کا خودکشی کا ارادہ اکثر ختم ہوجاتا ہے اس لیے والدین اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی نفسیات کو سمجھیں بچوں کو پیش آنے والی مشکلات کو دور کرے ان کی بہتر رہنمائی کریں زندگی گزارنے کے لئے سلیقہ چاہیے ہمیں خوشیوں میں “شکر “اور مصیبتوں میں “صبر “سے کام لینا چاہیے کیونکہ زندگی پولوں کی بیچ نہیں ہے۔ زندگی کی مشکلات میں ہی زندگی کا اصل راز مضمر ہے
گلستان:
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی