میرے ایک دوست نے پوچھا کہ ہماری بین الاقوامی ہیروئین کونسی ہے جس کے بارے میں آج تک سب سے زیادہ لکھا گیا؟ اگر ہیروکا پوچھا ہوتا تو بات واضح تھی کہ سلطان راہی ہمارا بین الاقوامی ہیرو ہے جسے لڑائی اور ایکشن کیلئے ڈپلیکیٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔میں چپ رہا تو اس نے بتایا وہ ہیروئین جس کے بارے میں آج تک سب زیادہ لکھا گیا ،جس پرکئی ڈرامے ہوئے،کئی فلمیں بنیں، جس پر روس سمینیار اور مزاکرے ہوتے ہیں۔۔۔
یہ وہ ہیروئین ہے جو پتلون میں نہیں ہوتی ہے۔وہ چیچوکی ملیاں میں بھی نظرآئے تو اخبارات وہی پزدیر ائی دیتے ہیں جو اے نیو یارک میں دیتے ہیں۔ جب وہ پکڑی جائے تو چاہے سوورو ہے کلوہی میں خریدی گئی ہو مگر صبح کے اخبار میں خبر چھپے گی تو اس کی قیمت بین الاقوامی منڈی کے حساب ہوگی تاکہ ہمارے ہاں لوگوں میں اس کی قدر میں اضافہ ہو۔اس ہیروئین پر جتنے لوگ فدا ہیں دنیا کی سی ہیروئین کے مقدر میں یہ نہیں۔میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو اتنا کنجوس تھا کہ ہنی مون منانے بنکاک کیلئے گیا تو اس میں بھی بچت کی کہ بیوی کو ساتھ لے کر نہ گیا تاکہ ایک بندے کا خرچہ بچے۔مگر اس کی خاطر خود خرچ ہوگیا۔اس کا منہ اتنا بڑا تھا کہ وہ اپنے کان میں سرگوشی کر سکتا مگر پڑی لے لے کر اب تو اس کے منہ کی بھی پڑی سے بند گئی ہے۔اب تو اس کی تصویر دیکھ رہے ہوں تو لگتا ہے ایکسرے دیکھ رہے ہیں۔ ہر گھنٹے بعد ہیروئین کا سگریٹ پیتا ہے جس میں 59منٹ سگریٹ مانگنے کے ہوتے ہیں۔نام پوچھو تو وہ بھی ساتھ والے سے مشورہ کرنے کے بعد بتائے گا۔ کہتا ہے” ایسی کوئی بات نہیں میری تو بلی تک اپنا نام بتا سکتی ہے۔
“پوچھا،تمہاری بلی اپنا نام کیا بتاتی ہے؟تو بولا”میاوں”۔۔۔۔گھر کی چیزیں بیچنے لگا تو گھر والوں نے قیمتی چیزیں وہاں رکھنا شروع کر دیں جہاں جانے سے ڈرتا تھا۔یو اب ساری قیمتیں چیزیں غسل خانے ہیں۔پہلے گیند دیوار پر مرتا تھا آج کل دیوار گیند پر مارنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کی حرکتوں کی وجہ سے والدین کے پاوں تلے سے زمین سرک کر سر تلے آگئی۔سگریٹ پینے سے آدمی کو عمر بھر کم ہوتی ہے اور ہیروئین پینے سے اس کے پورے خاندان کی عمر کم ہو جاتی ہے۔ہیروئین کے پہلے سگریٹ کو شعلہ دکھانا دراصل ماں کے دوپٹے کو شعلہ دکھانا ہے۔البتہ بعد کے سگریٹ میں یہ نہیں ہوتا کیونکہ بعد میں مان کے سر پرو دوپٹہ ہوتا ہی نہیں۔ یہ “چین سموکر”وہ ہوتے ہیں جن کے پاوں میں نہیں منہ میں چین پڑی ہوتی ہے۔وہ اس قدر گرجاتے ہیں کہ ان کو زمین کی سطح کے برابر لانے کیلئے ان پر مٹی ڈالنا پڑتی ہے۔والٹر ریلیگ کی طرح جسے محبوبہ کو کیچڑ سے گزارنے کیلئے اپنا کوٹ اس کی راہ میں بچھانا پڑا۔ یہ بھی کیچڑ میں محبوبہ کیلئے اپنا کوٹ بچھا سکتے ہیں،بس فرق یہ ہوتا کہ خود بھی کوٹ میں ہوتے ہیں۔یہ حالت ہوجاتی ہے کہ ایسے چار پانچ نشینوں نے رات کو ایک دروازہ کھٹکھٹایا،ایک خاتون باہر نکلی تو اسے کہا،محترمہ!آپ ہم میں سے اپنا خاوند پہچھان لیں تاکہ باقی اپنے گھروں کا جاسکیں
“اتنے سست کی ایک لقمہ کھانے میں پانچ منٹ لگاتے ہیں۔جس میں چار منٹ اپنامہ ڈھونڈنے میں لگاتے ہیں۔یہ تو گھر سے بہن کے جہیز کا سامان لینے نکلیں تو جب واپس آتے ہیں دروازہ اس بہین بیٹی کھولتی ہے۔اپنی بیوی کو اس وقت ملتے ہیں جب پیسے نہ ہوں ان کے مرنے پر ان کے گھر والے اتنے آنسوں نہیں بہاتے جتنے ان کے جینے پر بہاتے ہیں۔ہمارا قانون تو وہ مچھر دانی ہے جس میں سے چھوٹا مچھر نہیں گزر سکتا مگر بڑا مچھر آسانی سے گزر جاتا ہے اس لئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہیروئین کا کوئی نام نہ لے تو اس کا نام بدل دیں یوں بھی یہ وہ ہیروئین ہے جو ہیرو نہیں زیرو بناتی ہے۔یوں آپ اسے ہئروئین نہیں،زیروئین کہیں۔جہاں تک پینے والوں کا تعلق ہے تو شاید جے ارنسٹ نے اسی لئے کہا ہے۔۔”اے آقا”۔۔۔اگر کوئی آقا ہے تو۔۔۔۔۔میری جان بچا۔۔۔۔۔اگر میری جان ہے تو۔۔۔۔۔