امام ابوحنیفہ کا جنازہ جیل سے نکلا۔امام احمد بن حنبل کا جنازہ جیل سے نکلا اور وقت کے جابر اور زورآور حکمران کے کوڑے روز برداشت کرتے رہے مگر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا۔اس کو سب سے زیادہ تسلی ایک چور کی باتوں سے ملی۔خلیفہ ہارون الرشید دربار میں براجمان تھے۔باہر سے آوازیں آنے لگیں اور جب باہر دیکھا تو لوگ چھتوں اور دیواروں پر چڑھ کر کسی کی دیدار کے منتظر تھے۔پوچھا گیا کہ معاملہ کیا ہے؟جواب ملا کہ عبداللہ بن مبارک شہر تشریف لا رہے ہیں۔
خلیفہ نے تاریخی جملہ کہا کہ اصل بادشاہ یہ لوگ ہیں جو دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ہماری حکمرانی مرنے کے ساتھ ہی دفن ہو جاتی ہے ۔
شیخ الہند 80 سال کی عمر میں اسیر مالٹا بنے مگر سامراج کی دشمنی سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹا۔مولنا حسین احمد مدنی عدالت میں کندھے پر کفن لا کر جج کو وارننگ دیتا ہے کہ سر کٹ سکتا ہے مگر اپنا موقف نہیں چھوڑا سکتا۔مفتی محمود رح کو اعصابی اور نفسیاتی طور پر ٹارگٹ کیا گیا۔قسما قسم تکالیف پہنچائ گئیں۔غیر تو تھے ہی جفا والے۔اپنوں نے بھی سٹیج پر سامنے کھڑے ہو کر سخت سست وغیرہ القابات دئیے مگر علماء کو سیاسی میدان میں سرگرم کرنے والے مفتی محمود نے کوئ پرواہ نہیں کی اور نہ موقف سے ہٹے۔آخر ایک دینی مسئلے پر بحث کرتے ہوئے جان اللہ کے حوالے کی۔مولانا فضل الرحمن ابھی جوان ہی تھے کہ آمر کے قہر کا نشانہ بنے اور جیل بھیج دئیے گئے۔
پھر دوسرا آمر آیا اور اس مرد آہن کو نظربند کیا مگر کوئ فرق نہیں پڑا۔پھر الزامات اور اتہامات کی بھرمار کی گئیں۔صحافی خریدے گئے۔چینلز مسلسل پروپیگنڈہ کرنے لگے اور سیاسی کردار کشی کی گئی مگر بطل حریت کے عزم میں کمی نہ آئی۔اور آج ایک بار پھر زورآور کے خلاف میدان عمل میں سینہ تھان کر اور سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔کل جب آزاد تاریخ لکھی جائے گی تو اس مرد حر کا نام سرفہرست ہو گا۔لیکن ان صفحات پر ان ضمیر فروشوں اور دوسروں کے ڈول پر ناچنے والوں کا کوئ ذکر نہیں ہو گا۔