شداد اور اس کی جنت کا انجام
سمندر میں طوفان
ایک دفعہ نیلے سمندر میں ایک چھوٹا سا جہاز اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ اس جہاز میں بہت سے مسافر موجود تھے۔ اور ایک عورت بھی موجود تھی جس کے اسی وقت بچہ پیدا ہونے والا تھا ۔دیکھتے ہی دیکھتے سمندر میں ہوائیں تیز ہونے لگی اور طوفان آگیا۔ سب مسافر پریشان ہوگئے۔ طوفان بڑھتا جا رہا تھا۔ اور سب مسافر اپنی زندگی کی دعائیں مانگنے لگے۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ طوفان تیز ہوا اور جہاز دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ جو لوگ تیرنا جانتے تھے ۔وہ تیرکر کنارے پر جانے کی کوشش کرنے لگے۔ اور جس عورت کا بچہ ہونے والا تھا۔ وہ خوف کے مارے بے ہوش ہوگئی۔ اور جہاز کے ایک ٹوٹے ہوئے تختے پر پڑی تھی۔ اور یہ تختہ لہروں کے سارے بہتا چلا جا رہا تھا ۔اور اسی حالت میں عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا ۔اللہ کی طرف سے ملک الموت کو حکم ہوا کے اس عورت کی جان نکال لی جائے ۔چنانچہ اس عورت کی جان نکال لی گئی۔ اور وہ بچہ بے سروسامانی کی حالت میں تختی پر پڑا رہا تختہ تیرتے کنارے سے جا لگا۔
بچے کی سرپرستی
تختہ تیرتا تیرتا ایک دن کنارے سے جا لگا۔ ایک آدمی نے دیکھا تو اس نے بچے کو اٹھا لیا ۔اور میت کو ہی مٹی کھود کر دفن کر دیا۔ اور بچے کو اپنے ساتھ لے گیا ۔اس آدمی کی بیوی بچے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی ۔کیوں کہ ان کی کوئ اولاد نہیں تھی انہوں نے بچے کا نام شداد رکھا۔ اور بہت پیار اور محبت سے بچے کو پالا۔
شداد کی ذہانت
شداد کو ان دونوں میاں بیوی نے بہت لاڈ سے پالا ۔یہاں تک کہ وہ بچہ سات سال کا ہو گیا۔ اتنی کم عمر میں بھی شداد بہت ہی ذہین اور عقل مند تھا ۔ایک دن باہر کھیل رہا تھا کہ شور مچا کے بادشاہ کی سواری گزر رہی ہے ۔سب بچے یہ سن کر بھاگ گۓ۔لیکن شداد و ہی چھپ کے منظر دیکھنے لگا۔ جب سارا لشکر گزر گیا تو بادشاہ کےکچھ پیا دے پیچھے یہ دیکھنے کے لیے گزرے کہ کوئی چیز تو نہیں گری ۔ان کو پوٹلی گری ہوئی ملی جس میں ایک سرمےدانی تھی۔ انہوں نے شداد کو بھی وہاں دیکھ لیا۔ انہوں نے سوچا اس بچے پر تجربہ کیا جائے کہ اس کے سرمے میں کیا ہے۔ انہوں نے شدادکو بلایا۔ اور کہا بیٹا ادھر آؤ تمہاری آنکھوں میں سرمہ لگائیں۔ اس سے تمہاری آنکھیں اچھی ہو جائیں گی۔ انہوں نے جب شداد کی آنکھ میں سرمہ ڈالا سرمہ لگاتے ہی شداد کے چاروں طبق روشن ہو گئے اسے سارے خزانے نظر آنے لگے۔ لیکن شداد نے عقلمندی دکھائی۔ اس نے شور مچا دیا ارےتم نے میری آنکھوں میں کیا لگا دیا ہے میں تو اندھا ہو گیا ۔تو وہ پیادےڈر کے مارے سرمہ وہاں ہی پھینک کر بھاگ گئے ۔شدادہنسنے لگا ۔ سرمااٹھایا گھر پہنچا۔ اور گھر آکر سارا ماجرا اپنے باپ کو سنایا۔ وہ دونوں باپ بیٹا رات کے اندھیرے میں جاتے اور خزانہ کھودتے۔ اس طرح وہ بہت امیر ہوگئے۔
شداد کی جنت
اتنا کچھ ملنے پر شداد غرور میں آگیا۔ اس نے وہاں کے حکمران کو قتل کر کے خود حکمران بن گیا ۔اور اسی غرور میں اس نے خدائی دعوی کر دیا۔ اور اس نے کہا اللہ کی جنت دوزخ کیا چیز ہے میں خود جنت بناؤں گا۔ اس نے اپنی جنت بنانا شروع کی۔ اور اسے بنانے میں اس کے بارہ سال لگے۔ اس جنت میں اس نے دودھ اور شراب کی نہریں چلائی۔ یاقوت و جواہرات کے خوبصورت پرندے چاندی کی اینٹوں پر بنوائے گئے ۔اور ہر کام پر پہرے کے لیے آدمی بھی مقرر کیے گئے۔
شداد کی موت
جب شداد نے جنت تیار کروا لی تو وہ اسے دیکھنے کے لئے انتہائی غرور کے ساتھ روانہ ہوا۔ اور وہاں پہنچا ۔تو اس نے اس شہر کے دروازے پر ایک اجنبی آدمی کو دیکھا۔ تو پوچھا تم کون ہو۔ اس نے جواب دیا میں عزرائیل ہوں۔ اور تمہاری روح قبض کرنے آیا ہوں۔ تو شداد نے کہا مجھے ایک نظر اپنی جنت کو دیکھ لینے دو بس اتنی سی مہلت دے دو کہ میں اس شہر کا نظارہ کر سکوں شدادنے جیسے ہی پاؤں سواری سے نیچے رکھا اس کی روح قبض کرلی گئی ۔اور اس شہر کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔ اور یہ دنیا والوں کے لئے عبرت کا نشان بن گیا۔